بے وقوف کا بھروسہ ریچھ کی دوستی پر۔ دفتردوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک اژدہا ریچھ کو کھینچ رہا تھا۔ ایک دلاور پہلوان ادھر سے گزرا اور ریچھ کی مدد پر آمادہ ہوا۔ اژدہے کی سخت گرفت سے ریچھ چلایا تو دلاور پہلوان نے اس کو اژدہے کے قبضے سے چھٹرا دیا اور وہ داؤں پیچ بھی جانتا تھا اور قوت بھی رکھتا تھا۔ اس نے اژدہے کو مار ڈالا۔ اژدہے کو اس نے ایسے داؤں سے بے بس کیا کہ ریچھ جسمانی ہلاکت سے بچ گیا۔ اژدہے میں قوت تو بہت ہوتی ہے مگر داؤ پیچ وہ نہیں جانتا۔غرض ریچھ کو اژدہے سے چھٹکارا ملا ااور اس جواں مرد پہلوان کی ہمتِ مردانہ کا شکر گزار ہوا تو سگِ اصحابِ کہف کی طرح اس کے ساتھ ہوگیا۔ وہ شخص تھکا ہوا تھا۔
ایک جگہ آرام لینے کے لیے لیٹ گیا اور ریچھ از راہِ محبت پاسبانی کرنے لگا۔ راہ گیر نے جو یہ حال دیکھا تو پوچھا کہ اے بھائی خیر تو ہے۔ یہ ریچھ تیرا کون ہے؟ اس نے سارا قصہ اور اژدہے کا واقعہ سنادیا۔ راہ گیر نے کہا، ارے سادہ دل! ریچھ پر اعتبار مت کر۔ نادان کی دوستی دشمنی سے بد تر ہے۔ جس چال سے بھی ممکن ہو اسے مار بھگا۔ اس نے جواب دیا کہ خدا کی قسم تو از راہِ حسد کہتا ہے ورنہ بجائے اس کے ریچھ بن کے اس کی محبت کو دیکھتا۔ اس نے کہا کہ نادانوں کی محبت بہت چکنی چپڑی ہوتی ہے لیکن میرا یہ حسد ا س کی محبّت سے بہتر ہے۔ ارے بھلے مانس!میں ریچھ سے تو کم نہیں ہوں۔ اس کو ترک کردے تاکہ میں تیرا رفیق رہوں۔ میرا دال بُری فال کے خیال سے لرزنے لگتا ہے۔ اس ریچھ کے ساتھ کسی گھنے جنگل میں نہ جائیو۔ میرا دل جو کانپتا ہے سو یہ وہم نہیں ہے بلکہ یہ خدا کا نور ہے۔ جھوٹا دعویٰ اور خواہ مخوا کی ترنگ نہیں ہے۔میں مومن ہوں اور مومن خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔ دیکھ خبردار اس آتش کدے سے دور بھاگ۔ اس نے بہتیرا کہا مگر اس بےوقوف نے ایک نہ سنی۔ بدگمانی آدمی کے آگے بڑی چکلی دیوار ہوجاتی ہے۔ ناصح نے کہا کہ جب تو دوستی کی بات نہیں مانتا تو لے الوداع ۔ اس نے جواب دیا کہ چل اپنا راستہ لے۔ تو میرا ایسا غمخوار کہاں کا آیا۔ چلتے چلتے اس نے پھر کہا کہ دیکھ میں تیرا دشمن نہیں ہوں ۔ تیرے لیے بھلائی اسی میں ہے کہ تو میرے ساتھ ہولے۔ اس نے کہا کہ مجھے اب نیند آرہی ہے تو میرا پیچھا چھوڑ اور اپنا راستہ لے۔
وہ بدگمان نادان اور نااہل تھا۔ اس نے اپنے کتّے پن کی وجہ سے عقل مند ناصح پر حسد کی تہمت لگائی اور ریچھ کو محبت اور وفا کا پتلا سمجھا۔ آخر کار اس مسلمان نے نادان سے کترائی لی اورمنہ میں لاحول پڑھتا ہوا اپنا راستہ لیا اور اپنے جی میں کہا کہ جب نصیحت، اصرار، زبردستی سے اس کی بدگمانی اور برھتی ہے تو پند و نصیحت کی راہ بند ہوگئی اور ایسے لوگوں سے منہ پھیر لینا واجب ہوگیا۔
ادھر جب وہ شخص سو گیا اور ریچھ مکھیاں جھلتا رہا۔ مکھیاں باربار آنے لگیں اور یہ بار بار اڑاتا رہا۔ اس طرح اس نے کئی بار اس جوان کے منہ پر سے مکھیاں اڑائیں مگر مکھیاں باربار پلٹ کر وہیں جمع ہوجاتی تھیں۔ آخر کار بیزار ہوکر ایک طرف دوڑا ہوا گیا اور پہاڑ سے ایک بڑا پتھر اٹھا لایا۔ اس نےدیکھا کہ مکھیوں کے گچھے کے گھچے اس نیند کے متوالے کے منہ پر چمٹے ہوئے ہیں۔ بس اس نے پتھر اٹھایا اور اس ارادے سے یہ کہ مکھیاں نہ اڑیں نہ منہ پر بیٹھیں سونے والے کے منہ پر مارا۔ پتھر نے سونے والے کامنہ خشخاش کی طرح پاش پاش کردیا اور تمام دینا کے لیے یہ ضرب المثل بنادیا کہ نادان کی محبت اس ریچھ کی محبت کے برابر ہے ۔لہٰذا اس کا کینہ عین مہر اور مہر عین کینہ ہے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 74)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.