حضرت عمرکے پاس سفیر قیصر کا آنا۔ دفتراول
قیصر کا ایک سفیر دور دراز بیا بانوں کو طے کر کے حضرت عمر سے ملنے مدینے پہنچا۔ لوگوں سے پوچھا کہ خلیفہ کا محل کون سا ہے تاکہ میں وہاں اپنا خیمہ و خرگاہ پہنچاؤں۔ لوگوں نے جواب دیا کہ اس کا کوئی محل نہیں اس کا روشن قصر تو اس کا دل ہے۔ اس کی حکومت و شہریاری کا ساری دنیا میں شہرہ ہے لیکن وہ خود درویشوں کی طرح گھاس پھوس کی جھونپڑی میں رہتا ہے۔ اے بھائی! تجھے اس کا محل کیا دکھائی دے گا جب کہ میرے دل کی آنکھ میں بال نکل آئے ہیں۔ پہلے دل کی آنکھ سے بیماری کے بال صاف کر پھر کہیں اس کے محل کے دیکھنے کی آرزو کر۔ جب سفیرِ روم نے یہ باتیں سنیں تو اور زیادہ مشتاق ہوگیا۔ خیمہ و خرگاہ کو بے نگرانی چھوڑ کر حضرت عمر کی ہر طرف تلاش کرنےلگا۔
قاعدہ ہے کہ دُھن سچی ہو تو ڈھونڈنے والا مطلب پاہی جاتا ہے۔ ایک اعرابی کی عورت نے کہا کہ دیکھو! عمر اس کھجور کے درخت کے نیچے ہیں۔ ساری مخلوق سے الگ ہوکر وہ ظل اللہ درخت کے سایے میں سو رہا ہے۔ سفیر اُدھر بڑھاتو دور ہی ٹھٹھک کر رہ گیا اور حضرت عمر کو دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ ہر چند آپ سو رہے تھے مگر سفیر پر ہیبت طاری ہوگئی اور اسی کے ساتھ روح میں ایک سرور کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اگر چہ محبت اور ہیبت ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن اس نے یہ دو ضدیں اپنے دل میں جمع پائیں۔ اپنے جی میں کہنے لگا کہ میں نے کتنے بادشاہوں کی شان و شوکت دیکھی ہے اور بڑے بڑے درباروں میں سرفرازی حاصل کی ہے۔ کسی بادشاہ کی ہیبت مجھ پر اتنی نہیں چھائی جتنی کہ اس مرد کے رعب نے میرے ہوش اڑا دیئے۔ میں شیروں کے بَن میں بھی پھرا ہوں مگر کبھی ایسا خوف زدہ نہیں ہوا۔ میں نے جنگوں اور بڑی بڑی مہموں میں صفیں کی صفیں الٹ دی ہیں۔ میں نے بڑے بڑے زخم کھائے بھی ہیں اور لگائے بھی ہیں۔ ہمیشہ دوسروں کے مقابلے میں میرا دل مضبوط رہا۔ مگر یہ شخص جو بے ہتھیار زمین پر پڑا سوتا ہے کیا سبب ہے کہ اسے دیکھ کر میری بوٹی بوٹی لرز رہی ہے۔ یہ اس گدڑی والے فقیر کی ہیبت نہیں ہوسکتی۔ یہ ضرور حق کی ہیبیت ہے۔ مخلوق کی نہیں۔
وہ دل ہی دل میں یہ باتیں کر رہا تھا کہ حضرت عمر خواب سے بیدار ہوئے۔ سفیر نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا۔ آپ نے جواب دے کر آگے طلب کیا اور تسلی دے کر اپنے پاس بٹھا یا۔ اس کے ویران دل کو آباد کیا۔ بہت سی معرفت کی باتیں سمجھائیں۔ گویا شوقین شاگرد کو کامل استاد ملا۔ سفیر نے دریافت کیا کہ اے امیر المؤ منین! جان سی لطیف شےا عالمِ بالا سے عالمِ اسفل میں کیسے اتر آئی اور نامحدود عالم کا پرندہ گھٹے ہوئے پنجرے میں کیسے بند ہوگیا۔ حضرت نے فرمایا کہ جناب باری کے حکم میں وہ لذّت اور ترغیب ہے کہ بے گنتی وجودِ وجد کی حالت میں عدم کی طرف دوڑ پرتے ہیں۔
سفیر نے جب یہ نکتے سنے تو اس کے دل میں ایک نئی روشنی پیدا ہوئی۔ اس نے پھر سوال کیا کہ اس میں فائدہ اور حکمت کیا تھی کہ لطیف روح اس کثیف خاک میں قید ہوگئی۔ صاف پانی کا کیچڑ میں جذب ہوجانا اور روحِ باقی کا فانی اجسام میں گرفتار ہونا ایک سی بات ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اے عزیز تو چاہتا ہے کہ تیری ہر بات میں معنیٰ بندھے ہوئے ہوں۔ آزاد و لطیف مطالب کو لفظوں میں قید کرنا ایسا ہے جیسے ہوا کو چند آوازوں میں بند کر لینا۔ یہ کام تونے ایک فائدے کی خاطر کیا ہے لیکن خود یہ فائدہ تیرے منشا کو کہاں دیکھ سکتا ہے۔
پس جب ہم کو اس فعل میں فائدے نظر آتے ہیں تو وہ ذات جس نے تمام فائدے پیدا کئے ہیں اپنے فعل میں کیا کیا فوائد نہ دیکھتی ہوں گی۔ اب اگر گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو زبان بند کر لے اور اگر واقعی فائدہ مند ہے تو اعتراض چھوڑ اور خدا کا شکر بجالا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.