سائل کا حیلے سے بہلول سے بھید کہوا لینا۔ دفتردوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک شخص کہہ رہاتھا کہ مجھے ایسا عقل مند چاہئے جس سے آڑ ےوقت مشورہ لیا کروں۔ کسی نے کہا کہ ہمارے شہر میں تو سوائے اس مجنوں صورت کے اور کوئی عاقل نہیں۔ دیکھ وہ شخص سرکنڈے پر سوار بچوں میں دوڑ تا پھرتا ہے۔ ظاہر میں تو دن رات گیند کھیلتا پھر تا ہے مگر باطن میں پوشیدہ خزانہ ہے۔ سائل نے بھی حیلہ کیا اور بہلول سے کہا کہ اے سوار! ایک لحظے کے لیے گھوڑے کا رخ ادھر پھیر دیجئے۔ فوراً اس کی طرف سرکنڈا بڑھا کر کہا کہ ہاں جلدی کہو کیوں کہ میرا گھوڑا بہت منہ زور اور تیز ہے۔جلدی کر، کہیں تجھے لات نہ ماردے جو کچھ تو پوچھنا چاہتا ہے جلدی پوچھ۔ جب اس نے دل کا بھید کہنے کا کوئی موقع نہ دیکھا تو اس نے اپنے دل کے بھید کو چھپا کر دل لگی شروع کر دی کہ بہلول کا بھید معلوم کرنے کے لئے کہنے لگا کہ میں نکاح کے لیے ایک عورت کی تلاش میں ہوں۔ مجھ جیسے آدمی کے لیے کیسی عورت چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ جہان میں تین قسم کی عورتیں ہیں۔ ان میں دو کھوٹی ایک چلنی سکہ ہے۔
لہٰذا اگر اس سے نکاح کیا تو پوری کی پوری تیری جورو رہے گی اور دوسری ہے سو وہ آدھی تیری اور آدھی تجھ سے الگ اور وہ تیسری یاد رکھ کہ بالکل تیری نہیں۔ سن لیا چل دور ہو، میں تو چلا۔ کہیں میرا گھوڑا ایسی لات رسید نہ کرے کہ تو گر پڑے اور پھر اب تک اٹھ نہ سکے۔ شیخ سرکنڈے کا گھوڑا دوڑاتے چلے گئے مگر اس جوان نے دوبارہ آواز دی کہ اجی حضرت ،چلے کہاں، یہاں تو آؤ، یہ جو تم نے تین قسم کی عورتیں بتائیں تو ان کی علامت و شناخت تو بتاؤ۔ آپ نے پھر گھوڑا روکا اور فرمایا کہ اگر کنواری سے شادی کرے گا تو وہ پوری تیری ہوگی اور تو بے فکر رہے گااور جس کو میں نے آدھی جورو بتایا وہ بیوہ عورت ہوتی ہے اور جس کو میں نے جورو گیری ہی سے خارج بتایا وہ بال بچوں والی بیوہ ہے۔ ایسی عورت کے چونکہ پہلے شوہر سے بچے ہوتے ہیں اس لیے اس کی محبت اور دلی توجہ تمام تر اسی طرف ہوتی ہے۔ بس چل دے کہیں میرا گھوڑا لات نہ مارے اور میرے شریر گھوڑے کے سُم کا نشان بیٹھ جائے۔ شیخ نے اہاہاہا، اہو ہوہو کے نعرے لگائے اور اپنا گھوڑا پٹاا کر بچوں کو پاس بلانے لگے۔ اس سائل نے پھر چلا کر کہا اے میاں بادشاہ ایک سوال اور رہ گیا ہے ذرا وہ بھی بتاتے جاؤ۔ آپ نے پھر گھوڑے کو پھیر کر پوچھا کہ اے بادشاہ! اس قدر عقل وتمیز کے باوجود یہ کیا مکر کا جال بچھا رہا ہے۔ تو تو عقلِ کل سے بھی آگے اور گفتار میں آفتابِ وقت ہے پھر جنون میں کیوں چھپ گیا۔
آپ نے فرمایا کہ ان نفس پرستوں کی رائے یہ قرار پائی تھی کہ مجھے اس شہر کا قاضی بنائیں۔ میں نے معذرت کی تو اَڑ گئے کہ جب تم جیسا کوئی صاحبِ علم نہیں ہے تو باوجود اس کے حرام اور ناسزاوار ہے کہ کوئی کم علم شخص احکامِ قضا نافذ کرے۔ شریعت نے یہ اجازت نہیں دی ہے کہ ہم تیرے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو اپنا قاضی اور پیشوا تسلیم کریں۔ اس مجبوری سے میں دیوانہ ہوکر واہی تباہی پھرنے لگا اور اپنی معذوری کی بنا پر اس گروہ سے اپنا پیچھا چھڑایا۔ اگر چہ ظاہر میں مجھے خللِ دماغ معلوم ہوتا ہے لیکن باطن میں ویسا ہی ہوں جیسا کہ پہلے تھا۔ میری عقل گنج ہے اور میں ویرانہ ہوں اگر میں اپنا خزانہ عوام پر ظاہر کردوں تو یہ دیوانگی ہوگی۔ لہٰذا اب میں قند کی کان یا گنّے کے کھیت ہوں۔ مجھ سے شیرینی اُگتی ہے اور اس کو میں ہی کھاتا ہوں۔
بعض دفعہ ایسا وقت آتا ہے کہ اہلِ خرد کو اپنی خرد مندی چھپانے ہی میں خیریت نظر آتی ہے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 82)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.