ابلیس کا نماز کے لیے معاویہ کو بیدار کرنا۔ دفتردوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
روایت ہے کہ امیر معاویہ اپنے گھر کے ایک گوشے میں سو رہے تھے۔ چوں کہ لوگوں کی ملاقات سے تھک گئے تھے اس لئے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرلیا تھا۔ یکا یک ایک شخص نے جگادیا اور جب ان کی آنکھ کھلی تو غائب ہوگیا۔ آپ نے اپنے جی میں کہا کہ اس کے کمرے میں تو کوئی بھی نہ آسکتا تھا۔ پھر یہ کون تھا جس نے ایسی شرارت اور جرأت کی۔ آپ نے اس کی جستجو میں سارے کمرے کا چکّر لگایا، یہاں تک کہ اس روپوش کا پتہ لگ گیا۔ آپ نے پٹ کی آڑ میں ایک شخص کو دیکھا جو پردے سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھا۔
آپ نے فرمایا، ہائیں! ارے تو کون ، تیرا نام کیا؟ اس نے جواب دیا کہ میر انام الم نشرح ہے، میں ابلیس ہوں۔ آپ نے پوچھا کہ تونے مجھے کیوں بیدار کیا، سچ کہہ کوئی غلط وجہ نہ بتانا۔ اس نے کہا حضرت! نماز کا وقت ختم ہونے آیا اب مسجد کو لپکنا چاہئے۔ خود حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحدت کا موتی یوں پرویا ہے۔ عَجّلُوا الطاعات قبل الفوت، یعنی قبل اس کے کہ وقت نکل جائے ادائے عبادت میں جلدی کرو۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ تیری یہ غرض ہر گز نہیں ہوسکتی کہ نیکی کے کام میں میری رہنمائی کرے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ چور گھر میں آئے اور کہے کہ میں پاسبان ہوں۔ میں چور کی بات کا کیوں کر یقین کرلوں، چور مزدوری کے فائدے کو کیا جانے! ارے تو تو بڑا رہزن چور ہے اور تو مجھ پر اس قدر مہربان ہوجائے۔ ابلیس نے کہا کہ ہم فرشتے بھی رہ چکے ہیں اور طاعت و عبادت کے راستے کو جان و دل سے طے کرچکے ہیں۔ ہم اہلِ سلوک کے ہمراز اور عرش کے رہنے والوں کے ہمدم تھے۔ لہٰذا پرانی عادت ایک دم کیسے بدل جائے اور اس عادت کی محبت دل سے کیوں کر جاتی رہے۔ بزمانۂ سفر چاہے تو روم دیکھے چاہے ختن دیکھے۔ لیکن وطن کی محبت کا نقش دل سے کیوں کر مٹ سکتا ہے۔ ہم بھی اس شراب میں مست رہ چکے ہیں اور اس کی درگاہِ عالی کے عاشقوں میں سے تھے۔
امیر (معاویہ) نے کہا کہ یہ باتیں تو سچ ہیں لیکن یہ تیرے حصّے میں ہیں۔ لاکھوں کو تونے گمراہ کیا اور کومل لگا کر خزانے میں گھس آیا۔ تو تو مجسم آگ ہے۔ تجھے بغیر جلائے چارہ نہیں۔اور وہ کون ہے جس کا دامن تیرے ہاتھ سے چاک نہیں ۔ باتیں نہ بنا۔ مجھ پر تیرا قبضہ ممکن نہیں۔ تو رہزن ہے اور میں مسافر بیوپاری ہوں۔ تو مشتبہ مال کیسے ہی دھوکے سے لائے بھلا میں کب خریدنے والا ہوں۔ اے فریبی، سچ سچ بتا، تو نے کس مصلحت سے مجھے بیدار کیا۔ کیوں کہ اب میرے ساتھ بہانہ بازی نہیں چلے گی۔ اپنی غرض صاف صاف بیان کر۔ ابلیس نے کہا کہ جو شخص فطرتاً بدگمان ہوتا ہے وہ باوجود سو قرینوں کے بھی سچائی قبول نہیں کرتا۔ ہر دل جس میں کچھ سوچ بچار ہوتی ہے جب اس پر کوئی دلیل پیش کی جاتی ہے تو اس کے خیال کو اور تقویت ہوجاتی ہے۔ اے نیک مرد! تو خدا سے میرا رونا کیا روتا ہے تو اپنے ہی نفس کی شرارتوں کا رونا رو۔ تو حلوا کھاتا ہے اس سے بوجہ فسادِ خون تجھے دنبل ہوجاتے ہیں۔ بخار آنے لگتا ہے اور طبیعت بگڑ جاتی ہے لیکن چوں کہ تو اپنے کیے پر نظر نہیں رکھتا اس لیے ابلیس کو بے قصور لعنت کرتا ہے۔
امیر(معاویہ) نے کہا کہ جب تک سچ نہ کہے گا میں تجھے نہ چھوڑوں گا۔ اگر سچ بتائے تو میرے قبضے سے نجات پائے گا۔ ابلیس نے کہا اے سوچ بچار والے، شک و شبہ سے لبریز! آپ سچ اور جھوٹ کو کیوں کر پہچانتے ہیں۔ امیر(معاویہ) نے جواب دیا کہ حضرت پیغمبر نے اس کی پہچان بتائی ہے اور کھوٹے کھرے کی کسوٹی مقرر کر دی ہے، وہ یہ کہ آپ نے فرمایا کہ جھوٹ دلوں میں کھوٹ پیدا کرتا ہے اور سچ اطمینان بخشتا ہے۔ جھوٹ بات سے دل کو تسکین نہیں ہوتی جس طرح کہ پانی اور تیل کے ملنے سے روشنی نہیں ہوتی۔ سچی بات سے دل چین پاتا ہے کیونکہ سچائی مرغِ دل کی گرفتاری کے لیے دانہ ہے۔ میں نے اپنی عادت و کردار کو حرص و ہوا سے پاک کرلیا ہے۔ میں نے شہوت کے لقمے ترک کردئے ہیں۔ میرا ضمیر اتنا روشن ہوگیا ہے کہ سچ کو جھوٹ سے الگ کرلیتا ہے۔ اے ملعون کتے ! تو میرا جواب دے۔ سچ کہہ اور جھوٹے بہانے مت کر کہ تونے مجھے کیوں بیدار کیا۔ حالاں کہ اے دغاباز! تو بیداری کا دشمن ہے۔ تو خشخاش کی طرح خواب آور ہے۔ بلکہ تو مثلِ شراب کے ہے کہ عقل کو غائب کر دیتا ہے۔ دیکھ میں نے تجھےچار میخا کردیا ہے۔ صاف صاف بتا، حیلےحوالے مت کر، سچ کو میں جانتا ہوں، میں ہر شخص سے وہ بات سننی چاہتا ہوں جو اس کی طبیعت اور خو خصلت کے مطابق ہو۔ چوں کہ شیطان غیر ہے اس لیے میں یہ امید نہیں رکھتا کہ وہ از راہِ نیکی مجھے بیدار کرے۔
الغرض شیطان نے بہتیری مکرو فریب کی باتیں بنائیں لیکن امیر (معاویہ) نے ایک نہ سنی اور اس پر بہت تشدد کیا۔ اس نے دانت چبا کر کہا کہ لے سن، اے شخص! ہاں میں نے تجھے بیدار کیا تا کہ تو اپنے پیغمبر کی اتباع میں نماز جماعت میں داخل ہو۔ اگر تیری نماز کا وقت جاتا رہتا تو مارے دردوغم کے تیرے آنسووں کی مشکیں دونوں آنکھوں سے چھٹ جاتیں۔ ہر شخص ایک نہ ایک قسم کی عبات کا چسکا رکھتا ہے ۔ اس کے بغیر گھڑی بھر صبر نہیں کرسکتا وہ تیرا دردوغم سو نمازوں کے برابر ہوتا ۔ بھلا نماز میں اور اس فروتنی کی روشنی میں کیا نسبت ۔ اگر تمہاری نماز اس وقت فوت ہوجاتی تو اس پشیمانی کے درد سے تم آہ وفغاں کرتے۔ وہ افسوس، وہ آہ وزاری اور فروتنی، سو ذکر اور سو نمازوں پر سبقت لے جاتی۔ میں تو حاسد ہوں، میں نے اسی حسد سے تم کو بیدار کردیا۔ امیر معایہ نے کہا کہ اب تونے ٹھیک بات بتائی۔تیرا یہی کام ہے۔ تو اسی کے لائق ہے۔ تو مکڑی ہے مکھیوں کا شکار کرتا ہے۔ مگر اے کتے میں مکھی نہیں ہوں میرے شکار کے لیے تکلیف نہ اٹھا، میں سفید باز ہوں مجھے بادشاہ ہی شکار کرتا ہے۔ بھلا مکڑی میرے اطراف جالا کیوں کر تن سکتی ہے۔ تونے مجھے بیدار کیا سو وہ سلانے کے لئے تھا اور تونے جو کشتی دکھائی وہ گرداب تھا، تو جو مجھے بھلائی کی طرف بلا رہاتھا وہ اس لیے تھا کہ مجھے افضل تر نیکی سے باز رکھے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 85)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.