Sufinama

ایک شخص کا دعویٰ کہ خدا گناہ پر میری گرفت نہیں کرتا اور حضرت شعیب کا جواب۔ دفتردوم

رومی

ایک شخص کا دعویٰ کہ خدا گناہ پر میری گرفت نہیں کرتا اور حضرت شعیب کا جواب۔ دفتردوم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    حضرت شعیب کے زمانے میں ایک شخص کہا کرتا تھا کہ خدانے میرے ان گنت عیب دیکھے ہیں، اوہو! کس قدر گناہ اور جرم دیکھے ہیں لیکن اپنے کرم کی وجہ سے میری گرفت نہیں فرماتا۔ حق تعالیٰ نے غیبی آواز سے حضرت شیعب سے بطور جواب کے فرمایا کہ اے شخص تو سیدھا راستہ ترک کر کے جنگل میں بھٹک گیا ہے۔ تو کہتا ہے کہ میں تیرے گناہوں پر گرفت نہیں کرتا حالانکہ میں تیری اس قدر گرفت کرتا رہتا ہوں کہ تو سر سے پاؤں تک زنجیروں میں گھرا ہوا ہے مگر تجھے خبر نہیں۔ اے سیاہ دیگ تیرا رنگ تجھی پر چڑھ رہا ہے اور اس نے تیری روح کے ماتھے کو بے نور کر دیاہے۔ تیرے دل پر زنگ کی تہیں اس قدر چڑھ گئی ہیں کہ خدا کے بھیدوں کو دیکھنے سے تو اندھا ہوگیا ہے۔ لوہار جب زنگی ہو تو دھنواں اس کے چہرے کے ہم رنگ ہوتا ہے اگر کوئی رومی لوہاری کا پیشہ کرے تو اس کا چہرہ دھویں سے چتکبرا ہو جاتا ہے۔ ایسا آدی گناہ کی تاثیر جان جاتا ہے اور گڑ گڑا کر توبہ کرنے لگتا ہے جو آدمی برائی کرے اور اس پر اڑ جائے تو ا س کی سمجھ پر خاک پڑ جاتی ہے۔ وہ کبھی توبہ نہیں کرتا یہاں تک کہ گناہ اس کے دل کو بھا جاتا ہے اور وہ شخص بے دین ہوجاتا ہے۔ اس میں شرم و ندامت کا مادہ نہیں رہتا اور ساٹھ تہوں کا رنگ اس کے آئینے پر چھاجاتا ہے حتیٰ اس کے لوہے کو بھی زنگ کا مورچہ کھانے لگتا ہے۔

    جب حضرت شعیب نے یہ نکتے اس سے کہے تو اس کے دل میں چند لطائف کھلے۔ چوں کہ اس کی جان بھی وحی آسمانی سن رہی تھی۔ اس لیے اس نے کہا کہ اگر خدا میری گرفت کرتا تو میرا نام ونشان کیسے رہتا۔حضرت شعیب نےبارگاہِ الٰہی میں عرض کی بارِ الٰہ! یہ میری تردید کررہا ہے اور آپ کی گرفت کا علانیہ ثبوت مانگتا ہے۔

    حق تعالیٰ سے جواب ملاکہ میں عیب چھپانے والا ہوں، اس کے سب راز نہ کہوں گا البتہ اس کی گرفتاری کی ایک علامت بتا تاہوں۔ وہ یہ کہ وہ روزے رکھتا ہے، دعائیں کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، زکوٰۃ دیتاہے وغیرہ وغیرہ لیکن اس کی جان کو ان عبادتوں سے ذرا بھی لذت نہیں ملتی۔ وہ بہت سی عبادتیں اور نیک عمل کرتا ہے لیکن اس کو مزا نہیں آتا۔ اس کی عبادت ظاہر میں پاک ہوتی ہے۔ باطن میں پاک نہیں جیسے درخت میں اخروٹ تو بہت سے لگے ہوں مگر ان میں مغز نہ ہو۔ ذوق چاہیے تاکہ عبادت کا پھل ملے اور پھل میں مغز چاہئے تاکہ اس سے درخت پیدا ہو۔ جس طرح بے گودےکا بیج درخت نہیں بن سکتا اسی طرح بے جان صورت محض خیال ہوتی ہے۔ جب حضرت شعیب نے یہ نکتے اس کو سنائے تو سوچ ہی سوچ میں گدھے کی طرح کیچڑ میں پھنسا پھنسا رہ گیا۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 96)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے