تپتے بیابان میں ایک شیخ کا نماز پڑھنا اور اہلِ کارواں کا حیران رہ جانا۔ دفتردوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک چٹیل میدان میں ایک زاہد خدا کی عباد ت میں مصروف تھا۔ مختلف شہروں سے حاجیوں کا قافلہ جو وہاں پہنچا تو ان کی نظر اس زاہد پر پڑی دیکھا کہ سارا میدان خشک پڑا ہے مگر وہ زاہد اس ریت پر جس کے بھپکے سے دیگ کا پانی ابلنے لگے، نماز کی نیت باندھے اس طرح کھڑے تھے جیسے کوئی پھلواری یا ہری بھری دوب میں پہنچ کر مست ہوجاتا ہے۔ وہ نماز میں اپنے پیارے سے راز کی باتیں کرتا ہوا گہری فکر میں کھڑا تھا۔ حاجیوں کی جماعت بڑے ادب کے ساتھ اس فقیر کے نماز سے فارغ ہونے تک کھڑی رہی۔ جب وہ فقیر اپنی گہرائیوں میں ڈوب کر ابھرا تو لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ اور چہرے سے پانی ٹپک رہاتھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے کپڑے وضوسے بھیگ گئے ہیں۔ حاجیوں نے پوچھا کہ یہ پانی کہاں سے آیا؟ اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا کہ یہ سب اوپر سے ہے۔ پھر پوچھا کہ آیا یہ پانی جب تم چاہتے ہو مل جاتا ہے یا کبھی دعا قبول ہوجاتی ہے اور کبھی رد ہوجاتی ہے۔ اے سلطانِ دیں ہماری مشکل کو حل کرتا کہ تیرے حال سے ہمارا یقین بڑھے اور ہم جو اسباب کی پوجا کرتے ہیں، اس بت پرستی سے نجات پائیں۔ زاہد نے آسمان کی طرف آنکھیں اٹھائیں اور کہا کہ اے باری تعالیٰ! ان حاجیوں کی دعا قبول کر۔ چوں کہ تو نے بلندی سے مجھ پر دروازہ کھولا ہے اس لئے میں بلندی ہی سے اپنارزق طلب کرنے کا عادی ہوگیا ہوں۔
زاہد ابھی مناجات کررہی رہاتھا کہ دیکھتے کیا ہیں، ایک بادل کا ٹکڑا پانی ڈھونے والے ہاتھی کی طرح سروں پر چھا گیا اور پانی مشکوں اور پکھالوں برسنے لگا۔ بادل تو مشکوں برس رہاتھا اور پیاسے حاجی اپنی اپنی مشکیں بھر رہے تھے۔ اس بیابان میں یہ کرامت دیکھ کر حاجیوں میں سے ایک گروہ نے اپنے دل کے جنیو توڑ ڈالے۔
دوسری جماعت کا ان عجائبات سے خدا کی قدرت اور اہل اللہ کی قوت پر یقین بڑھ گیا۔ تیسری جماعت منکروں کی تھی وہ کچّے پھل کی طرح کھّٹے کے کھّٹے ہی رہے۔ اور ہمیشہ کے لئے ناقص رہ گئے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 102)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.