ایک خرگوش کا شیر کو مکر سے ہلاک کرنا۔ دفتراول
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
کلیلہ دمنہ سے اس قصے کو پڑھ اور اس میں سے اپنے حصے کی نصیحت حاصل کر۔ کلیلہ دمنہ میں جو کچھ تونے پڑھا وہ محض چھِلکا اور افسانہ ہے اس کا مغزاب ہم پیش کرتے ہیں۔
ایک سبزہ زار میں چرندوں کی شیر سے ہمیشہ کش مکش رہتی تھی۔ چوں کہ شیر چرندوں کی تاک میں لگا رہتا تھا اس لئے وہ چراگاہ ان سب کو اجیرن ہوگئی تھی۔ آخر سب نے مل کر ایک تدبیر سوچی اور شیر کے پاس آکر کہا کہ ہم روزانہ تیرے کھانے کے لیے پیٹ بھر کے راتب مقرر کیے دیتے ہیں۔ اس شیر نے جواب دیا کہ اچھا اگر تم مکر نہ کرو اور اپنے قول وقرار پر قائم رہوتو یہ بھی سہی۔ مگر میں تم جیسوں سے بہت بہت دھوکے کھا چکا ہوں۔ میں بہت سوں کے قول و فعل سے نقصان اٹھا چکا ہوں اور بہت سے سانپ بچھّو مجھے ڈس چکے ہیں۔ بہت کچھ بحث ہوئی۔
چرندے کہتے تھے کہ اے بہادر سورما! جب تجھے گھر بیٹھے رزق پہنچتا ہے تو پھر خدا کا شکر بجالا اور زیادہ کی ہوس میں تکلیف اور مشتم نہ اٹھا کیونکہ تو ہزار ہاتھ پاؤں مارے، خدا نے جو نصیب میں لکھ دیا ہے ا س سے زیادہ مل ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے اللہ کے نیک بندوں نے توکل کی تعلیم دی ہے۔ شیر نے جواب دیا کہ اللہ کے نیک بندوں نے تو ہمیشہ سخت محنت کی اور تکلیف اٹھائی۔ یہ دنیا تلاش اور جستجو کا مقام ہے۔ علم الٰہی کے بھید بھی محنت اور کوشش ہی سے کھلے ہیں۔
غرض شیر نے وہ دلیلیں دیں کہ وہ جبری فرقہ لا جواب ہوگیا۔ لومڑی، خرگوش، ہرن اور گیدڑ نے جبر کے طریق کو ترک کردیا اور شیر سے عہد کیا کہ یہ بیعت کبھی نہ ٹوٹے گی۔ ہر روز شکار بے کھٹکے پہنچ جائے گا اور تقاضے کی نوبت نہ آئے گی۔ یہ معاہدہ کر کے وہ ایک چراگاہ میں پہنچے۔ سب مل کر ایک جہی بیٹھےاور آپس میں گفتگو ہوئی۔ ہر ایک نئی تدبیر اور نئی رائے بتاتا تھا ،دوسرے کو کٹوانے کے در پے تھا۔ آخر کار یہ رائے طے ہوئی کہ قرعہ ڈالا جایا کرے۔ قرعے میں جس کا نام آجائے وہ بغرب کسی حیلہ حجّت کے شیر کی غذا کے لیے نام زد کیا جائے۔ سب نے اس طریقے کو تسلیم کیا۔ چنانچہ ہر روز جس کے نام قرعہ نکلتا وہ شیر کے پاس چپکے سے روانہ ہوجاتا تھا۔ جب اس قربانی کا دور خرگوش تک پہنچا تو خرگوش پکارا کہ کیوں صاحب، آخر یہ ستم کب تک سہا جائے گا؟ چرندوں نے کہا کہ کتنی مدت سے ہم عہد کے مطابق اپنی جان فدا کر رہے ہیں۔ اے سرکش! ہم کو بدنام مت کر اور بہت جلدجا، ایسا نہ ہوکہ شیر ہم سے ناراض ہوجائے۔ خرگوش نے کہا کہ دوستو! مجھے اتنی مہلت دو کہ میری تدبیر تم کو ہمیشہ کے لیے مصیبت سے بچاوے۔ مجھے خدا نے ایک نئی چال سمجھا دی ہے اور کمزور جسم والے کو بڑی قوی رائے سے سر فراز کیا ہے۔
چرندوں نے کہا اے چالاک خرگوش! بھلا بتا توسہی کہ تیری سمجھ میں کیا آیا ہے کہ تو شیر سے الجھتا ہے۔ تو صاف صاف بیان کر کیوں کہ مشورت سے فہم حاصل ہوتی ہے اور ایک عقل کو کئی عقلوں سے مدد ملتی ہے۔ خرگوش نے کہا کہ ہر راز بیان کے لائق نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے سے مبارک کام نامبارک ہوجاتا ہے اور کبھی نامبارک کام مبارک، غرض اس نے اپنا راز چرندوں سے بیان نہ کیا اور اپنا راز اپنی جان کے ساتھ لگائے رکھا۔ اس نے شیر کے سامنے جانے میں کچھ دیر لگائی اور اس کے بعد خونخوار شیر کے سامنے چلا گیا۔
دیر ہو جانے سے شیر غرّاغّرا کر زمین کو نوچے ڈال رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ دیکھا! میں نہ کہتاتھا کہ ان کمینوں کا عہد بالکل بودا ہے اور پورا ہونے والا نہیں ۔ ان کی چکنی چپڑی باتوں نے مجھے گدھے سے بھی بدتر کردیا۔ خیر دیکھوں تو یہ مخلوق کب تک دھوکے دیتی رہے گی۔وہ غصّے میں گرج رہا تھا ارے! ان دشمنوں نے کانوں کی راہ سے میری آنکھیں بند کردیں۔ ان اہلِ جبر کے مکر نے مجھ کو بے دست وپا ہی نہیں کیا بلکہ میرے بدن کو لکڑی کی تلوار سے قیمہ کردیا۔ آئندہ ان کی چاپلوسی میں کبھی نہ آؤں گا کہ وہ سب شیطانوں اور چڑیلوں کے بہکاوے ہیں۔
اتنے میں دیکھا کہ خرگوش دور سے آرہا ہے۔ خرگوش بالکل گستاخانہ، بے خوف دوڑتا آرہا تھا اور اس میں بھی سرکشی کے انداز تھے۔ کیوں کہ قاعدہ ہے کہ غم زدہ یا جھجکتی ہوئی چال پر شبہ ہوجایا کرتا ہے اور دلیرانہ چال پر کوئی اندیشہ نہیں کرتا۔جب وہ آگے بڑھ کر نزدیک پہنچا تو شیر نے وہیں سے ڈانٹا کہ اے ناخلف! ارے میں نے کتنے بیلوں کو چیرڈالا اور کتنے شیروں کو گوشمالی دے دی ہے۔ یہ آدھا خرگوش ایسا کہاں کا ہے جو اس طرح ہمارے فرمان کی خاک اڑائے۔ ارے گدھے! اپنے خواب خرگوش کو ترک کر اس شیر کے غرّانے کو غور سے سن۔
خرگوش نے عرض کیا ’’اگر جان کی امان پاؤں تو ایک عذر پیش کروں‘‘۔ شیر نے کہا ’’ابے بھونڈے بے وقوف بادشاہوں کے آگے سارا زمانہ آئینہ ہے، بھلا تو کیا عذر پیش کرے گا، تو مرغ بے ہنگام ہے ۔تیرا سر اڑادیناچاہیے، احمق کے عذر کو کبھی سننا بھی نہ چاہئے‘‘۔
خرگوش نے کہا کہ ’’اے بادشاہ! ادنیٰ سی رعیت کو بھی رعیت سمجھ اور مصیبت زدوں کی معذرت کو قبول فرما۔ یہ تیری شان وشکوہ کی زکوٰۃ ہوگی۔‘‘
شیر نے کہا ’’میں مناسب موقع پر کرم بھی کرتا ہوں اور جو شخص جس جامے کے لائق ہوتا ہے وہ اس کو پہناتا ہوں‘‘۔
خرگوش نے عرض کیا کہ ’’اگر تجھے عذر قبول ہے تو سن کہ میں صبح سویرے اپنے رفیق کے ساتھ بادشاہ کے حضور میں حاضر ہو رہاتھا(ان چرندوں نے) تیرے واسطے آج ایک اور خرگوش بھی میرے ساتھ کردیاتھا۔ راستے میں ایک دوسرے شیر نے ہم غلاموں پر تاک لگائی ۔میں نے اس سے کہا ہم شہنشاہ کی رعیت ہیں اور اسی درگاہ کے غلام ہیں۔ اس نے کہا کہ بادشاہ کون ہوتا ہے ،تجھے کہتے ہوئے شرم نہیں آتی، ہمارے آگے کسی کا ذکر مت کر۔ اگر تو اس رفیق کے ساتھ میرے آگے سے ذرا بھی کترائی لے گا تو تجھ کو اور تیرے شہنشاہ کو پھاڑ ڈالوں گا۔ میں نے کہا کہ ذرا مجھے اتنی ہی اجازت دیجئے کہ اپنے بادشاہ سلامت سے تمہاری خبر پہنچا کر چلا آؤں۔ اس نے کہا کہ اپنے ساتھی کو رہن کردے ورنہ میرے مذہب میں تو قربانی ہے۔
ہم دونوں نے ہر چند خوشامد درآمد کی مگر اس نے ذرا نہ سنا۔ میرے ساتھی کو چھین لیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ وہ ہمراہی اس کے پاس گروہوگیا اور مارے خوف کے اس کا دل خون ہوگیا۔ میرا ہمراہی تازگی اور موٹاپے میں مجھ سے نہ صرف جسم میں بلکہ خوبی اور خوب صورتی میں بھی کہیں بڑھا چڑھا ہے۔ القصّہ اس شیر کی وجہ سے وہ راستہ بند ہوگیا۔ ہم پر جو کچھ بپتا پڑی وہ گوش گزار کی گئی۔ لہٰذااے بادشاہ! اس حالت میں روز مرّہ اپنا راتب پہنچنے کی امید نہ رکھ، سچی بات کڑوی ہوا کرتی ہے مگر میں نے تو سچ ہی کہہ دیا۔ اگر تجھے بروقت راتب چاہئے تو راستے کو صاف کر۔ ابھی میرے ساتھ چل اور اس نڈر شیر کو دفع کر‘‘ شیر نے کہا ’’ہاں چلو، دیکھوں تو وہ کہاں ہے؟ اگر تو سچا ہے تو آگے آگے چل تاکہ اس کو اوراس جیسے سوبھی ہوں تو سزادوں اور اگر تونے جھوٹ کہا ہے تو اس کی سزا تجھے دوں‘‘۔
خرگوش آگے آگے فوج کے نشان بردار کی طرح بڑھا تا کہ شیر کو اپنے مکر کے چال تک پہنچائے۔ ایک شکستہ کنویں کو پہلے ہی سے منتخب کرلیاتھا۔ دونوں وہاں تک پہنچ گئے مگر در اصل گھاس تلے کا پانی تو خود یہی خرگوش تھا۔ پانی گھاس پھوس کو تو بہا لے جایا کرتا ہے مگر تعجب یہ ہے کہ پہاڑ کو بھی بہا لے جاتا ہے۔ خرگوش کے مکر کا جال شیر کے حق میں کمند ہوگیا۔ وہ خرگوش بھی عجیب دل گردے کا تھا کہ شیر کو اڑا لے گیا۔ شیر جو خرگوش کے ساتھ تھا تو غصے میں بھرا ہوا اور کینے کی آگ میں پک رہا تھا۔ دلیر خرگوش جو آگے آگے تھا اب اس نے آگے بڑھنے سے پاؤں روکے۔ شیر نے دیکھا کہ ایک کنّویں کے پاس آتے ہی خرگوش رکا اور پاؤں پیچھے پیچھے ڈالنے لگا۔ شیر نے پوچھا۔ ’’تونے آگے بڑھتے ہوئے قدم پیچھے کیوں پھیر لیے، خبردار پیچھے مت ہٹ، آگے بڑھ‘‘ خرگوش نے کہا ’’میرے پاؤں میں دم کہاں، میرے تو ہاتھ پیر پھول گئے، میری جان میں کپکپی پڑ گئی اور دل ٹھکانے نہیں رہا۔ تو نہیں دیکھتاکہ میرے چہرے کا رنگ سونے جیسا زرد پڑ گیا ہے۔ یہ میری دلی حالت کی خبر دیتا ہے‘‘، شیر نے کہا ’’ آخر سبب تو بتا کہ تو اس طرح کیوں جھجک رہا ہے؟ اے بیہودہ! تو مجھے چکمہ دیتا ہے۔ سچ بتا تونے پاؤں آگے بڑھنے سے کیوں روکا؟‘‘ خرگوش نے کہا ’’اے بادشاہ وہ شیر اسی کنویں میں رہتا ہے۔
کنواں کیا ہے ایک قلعہ ہے جس میں وہ ہر آفت سے محفوظ ہے۔ میرے ساتھی کو چھین کر اسی کنویں میں لے گیا ہے ‘‘ شیر نے کہا اچھا تو آگے بڑھ کر دیکھ اگر وہ کنویں میں اب بھی موجود ہے تو میرے مقابلے سے مغلوب ہوجائے گا‘‘ خرگوش نے کہا کہ ’’میں تو اس کے خوف کی آگ سے جلا جا رہا ہوں، البتہ اگر تو مجھے اٹھا کر اپنی بغل میں لے لے تو نشاندہی کرنے کو حاضر ہوں تاکہ اے بلوان تیری ہمّت اور پشتیبانی کی ڈھارس میں آنکھیں کھولوں اور کنویں میں جھانک کر دیکھوں۔ میں تو صرف تمہاری ہمت ہی سے کنویں کی طرف رُخ کرسکتا ہوں‘‘۔
شیر نے اسے اپنی بغل میں اٹھا لیاتو اس کی پناہ میں کنویں کے دہانے تک پہنچا۔ جب ان دونوں نے کنویں میں جھانکا تو شیر نے اس کی بات کی تصدیق کی۔ اصل میں کنویں کے پانی میں شیر نے اپنے ہی عکس کو اس طرح دیکھا کہ ایک شیر بغل میں خرگوش دبائے کھڑا ہے۔ جونہی اس نے پانی میں اپنے دشمن کو دیکھا، غصے میں بے تاب ہوکر خرگوش چھوڑ دیا اور کنویں میں کود پڑااور جو کنواں ظلم کا کھودا تھا اس میں خود ہی گر گیا۔
جب خرگوش نے دیکھا کہ شیر کنویں میں بے دم ہوگیا تو قلابازیاں کھاتا خوشی خوشی سبزہ زار کو دوڑا۔ وہ شیر کا شکاری چرندوں میں پہنچا اور کہا کہ ’’اے قوم!مبارک ہو، خوش خبری دینے والا آگیا۔ اے عیش کرنے والو! خوش ہوجاؤ کہ وہ دوزخ کا کتّا پھر دوزخ کو سدھارا جس کو سوا ظلم کے کچھ نہ سو جھتا تھا۔ مظلوم کی آہ اس کو لگی اور وہ پارہ پارہ ہوگیا۔ اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ سر پھٹ کر بھیجا نکل پڑا اور ہماری جانوں کو آئے دن کی مصیبت سے امان ملی، خدا کا فضل ہے کہ وہ نیست و نابود ہوگیا اور ایسے سخت دشمن پر ہمیں غلبہ حاصل ہوا۔
سب چرندے مارے خوشی کے اچھلتے کودتے اور قہقہے لگاتے ایک جگہ جمع ہوئے خرگوش کو شمع کی طرح بیچ میں لے کر سب نے سجدہ کیا اور کہا بے شک یا تو فرشتہ ہے یا جن ہے یا شیروں کا ملک الموت ہے۔ جو کچھ بھی تو ہے ہماری جان تجھ پر قربان ہے، تونے ایسی فتح پائی ہے کہ بس یہ تیرے ہی زورِ بازو کا کام تھا۔ بھلا اس خوش خبری کا تفصیلی واقعہ تو سنا جس سے ہماری روح کو تازگی اور دل کو غذا ملی ہے۔
اس نے کہا اے میرے بزرگو!یہ محض خدا کی تائید تھی ورنہ خرگوش کی کیا بساط ہے۔ خدا نے مجھے جرأت اور عقل کو روشنی بخشی اور اس عقل کی روشنی سے میرے ہاتھ پیر میں توانائی آئی ہے۔ اے حضرات! یہ اسی کا فضل ہے لہٰذا جان ودل سے خدا کی درگاہ میں سجدہ کرو (اور یہ دعا کرو) اے بادشاہوں کے بادشاہ! ہم نے ظاہری دشمن کو تو مار لیا لیکن اس سے بد تردشمن ہمارے اندر موجود ہے۔ اس اندر کے دشمن کو مارنا عقل و تدبیر سے ممکن نہیں کیوں کہ یہ خرگوش کے بس کا نہیں۔ ہمارا نفس دوزخ ہے اور دوزخ ایسی آگ ہے کہ سات سمندر پی کر بھی نہ بجھے اور اس کی بھڑک میں کوئی کمی نہ آئے۔
- کتاب : Hikayat-e-Rumi Hisaa-1 (Pg. 17)
- Author :مولانا رومی
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.