ایک سنپیرے کا ٹھٹروے ہوئے اژدہے کو بغداد میں لانا۔ دفترسوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
جو غرور فرعون میں تھا وہ تجھ میں بھی موجود ہے لیکن تیرے اژدہے کنویں میں بند ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک سنیپرا پہاڑ پر سانپ پکڑنے گیا ۔وہ برف باری کے زمانے میں ڈھونڈتا پھر رہاتھا کہ اس نے ایک بہت بڑا مردہ اژدھا دیکھا جس کے دیکھے سے اس کا دل خوف زدہ ہوگیا۔ سنپیرا تو نادان عوام کو حیران کرنے کے واسطے سانپ پکڑا کرتا ہے۔ اس نے مردہ اژدہا اٹھایا اورشہرِ بغداد میں اس کا تماشا دکھانے لایا۔ اژدہا کیا تھا، پورا ستون کا ستون تھا۔ اسے باندھ کر کھینچتا ہوا لایا اور پکارا کہ میں ایک مردہ اژدہا لایا ہوں۔ اس کے شکارمیں میں نے اپنی جان جوکھم میں ڈال دی تھی۔ وہ توا س کو مردہ گمان کرتا تھا لیکن در اصل اژدھا زندہ تھا۔ وہ سردی اور برف باری سے ٹھٹردگیا تھا اور مردہ دکھائی دیتاتھا۔
القصہ ایک تالاب کے کنارے اس نے پکارنا شروع کیا جس سے شہر بغداد میں یہ خبر پھیل گئی کہ سنپیرا ایک اژدہا لایا ہے اور بہت نادر قسم کا ہے جو آج تک نہ دیکھا گیا اور نہ سناگیا۔ ہزاروں بے وقوف جمع ہوئے ۔ سنیپرا انتظار میں تھا کہ اور زیادہ خلقت جمع ہوجائے تو دکھائے کیوں کہ جس قدر لوگ زیادہ جمع ہوں پیسے بھی زیادہ ملتے ہیں۔ غرض خلقت کا اژدہام اس قدر ہوا کہ تِل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ یکایک اژدہے نے اپنا منہ کھولا۔ پھر تو دیکھنے والوں کا مارے دہشت کے منہ کھلا کا کھلا رگیا۔ اژدہا برف سے ٹھھٹراہوا تھا اور بہت سے ٹاٹ کے ٹکڑوں اور پردوں میں چھپا ہوا تھا اور رسیوں میں بندھا ہواتھا۔ ایک طرف تو لوگوں کے جمع ہونے میں دیر ہوئی اور لوگوں نے غل غپاڑا مچایا۔ دوسری طرف ملکِ عرب کا گرم آفتاب چمکا۔ اس گرمی سے وہ اژدہا جو سنکا اور اس کے جوڑ بند کھلے تو وہی مردہ اژدہا زندہ ہوکر رینگنے لگا۔ یہ دیکھ کر خلقت میں چیخم دھاڑ اور ایک دم بھاگڑ پڑگئی۔ اس نے ساری رسیاں توڑ ڈالیں اور بڑی زبردست سرسراہٹ کی آواز کے ساتھ ہر طرف پھرنے لگا۔ وہ بالکل قبضے سے باہر ہوگیا اور شیر کی طرح غرّایا۔ اس بھاگڑ میں اس قدر مخلوق کچلی گئی کہ بہت سے لوگ مر گئے۔ اور ادھر سنپیرے کے مارے خوف کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ اس نے اپنے جی میں کہا کہ ہائیں! میں پہاڑیوں میں سے یہ کیا اٹھالایا۔ اس اندھے بھیڑیے کو میں نے ہشیار کردیا اور اپنے ہاتھوں اپنی موت بلائی۔ اتنے میں اژدہے نے اس کا لقمہ کیا اور نہتّے کا کھاجانا کیا بڑی بات ہے۔اس کے بعد اژدہے نے ایک ستون سے اپنے کو لپیٹا اور ایسا ایک بل کھایا کہ اس سنپیرے کی ہڈیاں تک چورا چور ہوگئیں۔
تیرا نفس بھی اژدہا ہے۔ یہ ہر گز مردہ نہیں بلکہ بے سروسامانی کی وجہ سے ٹھھٹرا ہوا ہے۔فرعون جس کے حکم سے دریا کا پانی رواں ہوتا تھا، اگر ویسی قدرت و حکومت تجھ کو مل جائے تو تو بھی ایسی فرعونی کرے گا کہ سو موسیٰ اور ہارون پر چھاپا مارے گا۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 114)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.