ایک زاہد کا بے قراری میں اپناعہد توڑدینا۔ دفترسوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
میں ایک حکایت بیان کرتا ہوں اگر تم غور کرو تو حقیقت پر فریفتہ ہوجاؤ۔ ایک درویش پہاڑیوں میں رہتاتھا۔ تنہائی ہی اس کے جور و بچے تھے اور تنہائی ہی اس کی مصاحب تھی۔ پروردگار کی جانب سے اس کو مستانہ خوشبوئیں پہنچتی تھیں۔ اس لیے وہ لوگوں کے سانس کی بدبو سے پریشان ہوتا تھا۔
بات یہ ہے کہ جس طرح آرام سے گھر میں مقیم رہنا ہمیں اچھا لگتا ہے اسی طرح دوسرے گروہ پر سفر آسان کر دیا گیا ہے۔
القصّہ پہاڑ کی وادیوں میں پھل دار درخت سیب امرود اور انارکے بہت تھے۔ اس درویش کی غذاوہی میوے تھے، ان کے سوا اور کچھ نہ کھاتا تھا۔ ایک مرتبہ درویش نے خدا سے عہد کیا کہ اے میرے پالنے والے میں ان درختوں سے خود میوہ نہ توڑوں گا نہ کسی اور سے توڑنے کی درخواست کروں گا۔ میں وہ میوہ نہ کھاؤں گا جس کو ڈالیاں بلند رکھیں، صرف وہی میوہ کھاؤں گا جو ہوا کے جھونکے سے جھر پڑے ۔اتفاقاًپانچ دن تک کوئی سیب یا امرود ہوا سے نہیں جھڑا اور بھوک کی آگ نے درویش کو بے قرار کردیا۔ ایک ڈالی پر چند امرود لگے ہوئے دیکھے مگر پھر بھی صبر کیا اور اپنے کو قابو میں رکھا۔اتنے میں ہوا کا جھکّڑ ایسا آیا کہ شاخ نیچے کو جھک گئی۔ پھر طبیعت قابو میں نہ رہی۔ بھوک نے آخر زاہد کو عہد توڑنے پر آمادہ کردیا اور درخت سے میوہ توڑنا تھا کہ اس کا عہد ٹوٹ گیا۔ ساتھ ہی خدا کی غیرت نے حرکت کی کیوں کہ خدا کا فرمان ہے کہ جو عہد باندھو اس کو ضرور پورا کرو۔ اسی پہاڑ میں شاید پہلے بھی چوروں کی جماعت رہتی اور وہیں چوری کا مال آپس میں تقسیم کیا کرتی تھی۔
اتفاقاً اسی وقت ان کے وہاں موجود ہونے کی خبر پاکر کوتوالی کے سپاہیوں نے اس پہاڑی کا محاصرہ کرلیا اور چوروں کے ساتھ درویش کو بھی گرفتار کر کے ہتکڑ ی بیڑی ڈال دی۔ اس کے بعد کوتوال نے جلّاد کو حکم دیا کہ ہر ایک کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے۔ جلاّد نے وہیں بایاں پاؤں اور دایاں ہاتھ سب کا کاٹ ڈالا۔ اب کیاتھا شور و واویلا سے سارا پہاڑ گونج اٹھا۔ انہیں میں درویش کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالا گیااور پاؤں کاٹ دینے کا انتظام ہورہاتھا کہ ناگاہ ایک سوار گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا اور سپاہیوں کو للکار کر کہا کہ ارے کتّو! دیکھو یہ فلاں شیخ اور خدا کے ابدال سے ہیں ۔ان کا ہاتھ کیوں کاٹ ڈالا۔ یہ سن کر سپاہی نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور تیزی سے کوتوال کی حضور پہنچ کر اس واقعہ سے آگاہ کیا۔ کوتوال یہ سن کر ننگے پاؤں معذرت کرتا ہوا حاضر ہوا کہ اے حضرت! معاف فرمائیے، خدا گواہ ہے کہ مجھے خبر نہ تھی۔ اے بخشش کرنے والے اہلِ بہشت کے سردار میں نے سخت گناہ کیا آپ مجھے بخش دیجئے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اس تکلیف کا سبب جانتاہوں اور میں اپنے گناہ سے خود واقف ہوں۔ میں نے ایمانداری کی عزّت برباد کردی اس لیے سزا میں ہاتھ پر آفت آئی ۔ ہمارا ہاتھ پاؤں اور ہمارا جسم وجان، دوست کے حکم پر نثار ہوجائے ۔یہ توشکر کا مقام ہے۔ تجھ سے کوئی شکایت نہیں۔ تجھے کیا خبر تھی، لہٰذا تجھ پر کوئی آفت نہ آئے گی۔ جو غلبۂ فرمانروائی سے واقف ہے اسے خدا سے الجھنے کی کیا مجال ہے۔
اب درویش کی کرامت سنو کہ ہاتھ کٹنے کے بعد لوگوں میں ان کا نام ٹنڈے شیخ پڑ گیا تھا۔ لوگ اسی لقب سے ان کو پکارتے تھے۔ اتفاقاً ایک شخص بغرضِ ملاقات ان کی جھونپڑی میں آگیا۔ دیکھا کہ حضرت دونوں ہاتھوں سے اپنی جھولی سی رہے ہیں۔ شیخ نےکہا کہ ارے جان کے دشمن تو میری جھونپڑی میں بے اطلاع منہ ڈال کر کیسے آگیا۔ اس نے عرض کی محبت اور اشتیاق کی وجہ سے غلطی ہوگئی۔ شیخ نے فرمایا کہ اچھا تو چلا آ، لیکن خبردار یہ حال لوگوں سے مخفی رکھنا۔ جب تک میں مرنہ جاؤں اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن جھونپڑی کے باہر ایک مجمعِ کثیر جھانک رہاتھا ۔وہ شیخ کے جھولی سینے پر واقف ہوگیا۔ شیخ نے دل میں کہا کہ اے پروردگار اس کی حکمت توہی جانتا ہے کہ میں اس کرامت کو چھپاتا ہوں اور تو اس کو ظاہر کرتا ہے۔
شیخ کو الہام ہوا کہ قریب تھا کہ لوگ تجھ سے منکر ہوجائیں اور کہتے پھریں کہ تو راہِ خدا میں مکر کا جال پھیلا کر بیٹھا تھا اس لیے خدا نے اس کو بدنام و رسوا کیا۔ ہم کو منظور نہ ہوا کہ وہ لوگ کافر ہوجائیں اور اپنی گمراہی سے بدگمانی میں پڑیں ۔اس لیے ہم نے تیری یہ کرامت ظاہر کردی کہ کام کے وقت میں ہم تجھے ہاتھ عطا کردیتے ہیں تاکہ یہ بدگمانی کے روگی درگاہِ الٰہی سے پھر نہ جائیں۔ میں تو ان کرامتوں سے پہلے بھی تجھے اپنی ذاتِ خاص کا عرفان دے چکا ہوں۔ یہ کرامت جو تجھ کو عطا ہوئی یہ ان عوام کے لیے ہے اور یہ چراغ اس مصلحت سے روشن کیاگیا ہے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 130)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.