دوربین اندھا، تیز سننے والا بہرا اور دراز دامن ننگا۔ دفترِسوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
بچے بہت سے من گھڑت قصے کہتے ہیں۔ ان کہانیوں اور پہیلیوں میں بہت سے راز اور نصیحتیں ہوتی ہیں اور فضول باتیں بھی، لیکن تو انہی ویرانوں میں سے خزانہ تلاش کر۔
ایک بڑا گنجان شہر تھا۔ کوئی دس شہروں کے آدمی اس کے ایک شہر میں آباد تھے لیکن وہ سب کے سب تین ہی قسم کے نادان تجربہ کار تھے۔ ایک تو وہ کہ دور کی چیز دیکھتا تھا مگر آنکھوں سے اندھا تھا۔ حضرت سلیمان کے دیدار سے تو اس کی آنکھیں بے نصیب تھیں لیکن چیونٹی کے پاؤں دیکھ لیتا تھا۔ دوسرا بہت تیز سننے والا مگر بالکل بہرا تھا اور تیسرا چُم ننگا جیسے چلتا پھرتا ہوا مردہ لیکن اس کے کپڑوں کے دامن بہت لمبے لمبے تھے۔
اندھے نے کہا دیکھو ایک گروہ آرہا ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ کون سی قوم ہے اور اس میں کتنے آدمی ہیں۔ بہرے نے کہا کہ ہاں میں نے بھی ان کی باتوں کی آواز سنی، ننگے نے کہا کہ بھائی مجھے یہ ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں میرے لمبے لمبے دامن نہ کترلیں۔
اندھے نے کہا کہ دیکھو! وہ لوگ نزدیک پہنچ گئے۔ ارے جلدی اٹھو! مار پیٹ یا پکڑ دھکڑ سے پہلے ہی نکل بھاگیں۔ بہرے نے کہا کہ ہاں ان کے پیروں کی چاپ نزیک ہوتی جاتی ہے۔ اے دوستو! ہوشیار ہوجاؤ۔ ننگے نے کہا کہ بے شک بھاگو کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ میرا دامن کتر لیں میں تو بالکل ہی خطرے میں ہوں۔
الغرض تینوں شہر سے بھاگ کر باہر نکلے اور بھاگ کر ایک گاؤں میں پہنچے۔ اس گاؤں میں انہوں نے خوب موٹا تازہ مرغ پایا لیکن بالکل ہڈّیوں کی مالا کہ ذرا سا بھی گوشت اس میں نہ تھا۔ اندھے نے اسے دیکھا۔ بہرے نے اس کی آواز سنی اور ننگے نے پکڑ کر اپنے دامن میں لے لیا ۔ وہ مرغ مرکرخشک ہوگیاتھا اور کوّے نے اس میں چونچیں ماری تھیں۔ ان تینوں نے ایک دیگ منگوائی جس کا نہ دہانہ تھا نہ پیندا ،بس اسی کو چولھے پر چڑھا دیا۔ ان تینوں نے وہ موٹا تازہ مرغ دیگ میں ڈالا اور پکانا شروع کیا اور اتنی آنچ دی کہ ساری ہڈیاں گل کر حلوا ہوگئیں۔ پھر جس طرح شیر اپنا شکار کر کےکھاتا ہے اسی طرح ان تینوں نے وہ مرغ کھایا اور ہر ایک نے ہاتھی کی طرح سیر ہوکر کھایا۔ وہ تینوں اس مرغ کو کھاکر بہت بڑے گراں ڈیل ہاتھی کی طرح موٹے تازے ہوگئے۔ ان کا موٹاپا اتنا بڑھا کہ ہر ایک چوڑے چکلے پن کی وجہ سے جہاں میں نہ سماتاتھا۔ مگر اس موٹاپے کے باوجود وہ دروازے کے سوراخ میں سے نکل جاتے تھے۔
مخلوق کو ہو کا ہوگیا کہ دنیا کی ہر شئے پیٹ میں اتار لے اور کھا کھا کر خوب موٹی ہوجائے خواہ وہ چیز جو ظاہر میں چرب اور اچھی نظر آتی ہے حقیقت میں کیسی ہی گندی اور ناجائز کیوں نہ ہو، اسے اپنا پیٹ بھر نے سے کام ہے۔ لیکن دوسری طرفہ تربات یہ ہے کہ اسے موت کے راستے پر چلے بغیر چارہ نہیں اور یہ وہ عجیب راستہ ہے کہ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک کے پیچھے ایک قافلے کے قافلے دروازے کے روزن سے نکلے چلے جاتے ہیں اور وہ روزن دکھائی نہیں دیتا بلکہ خود اس دروازے کا پتا نہیں چلتا جس کے روزن سے یہ قافلہ گزرا چلا جاتا ہے۔
اس قصے میں امید کی مثال بہرے کی ہے کہ ہماری موت کی خبر تو سنتا ہے مگر اپنی موت کی خبر نہ سنتا ہے نہ اپنے کو گزرتا ہوا دیکھتا ہے۔ حرص کی مثال اندھے کی ہے کہ مخلوق کے ذرا ذرا سے عیب کو دیکھتا ہے اور کوچہ بہ کوچہ تشہیر کرتا ہے کہ کہیں اس کا دامن نہ کترلیں تو بھلا ننگے کے پاس دھرا ہی کیا ہے جو اس کا دامن کتر جائے گا۔ یہ دنیا دار شخص ہے کہ دنیا میں ننگا آیا ہے اور ننگا ہی جاتاہے مگر ساری عمر چور کے غم میں اس کا جگر خون رہتا ہے۔ ایسا آدمی اپنی موت کے وقت اور بھی واویلا مچا تا ہے۔ لیکن اس وقت خود جان خوب ہنستی ہے کہ زندگی میں یہ شخص کس چیز کا خوف کھایا کرتاتھا۔ اس گھڑی روپئے والے کو تو معلوم ہوتا ہے کہ در اصل وہ بالکل مفلس تھا اور صاحبِ حس کو پتا چلتا ہے کہ زندگی کیسی بے ہنری میں گزری ہے۔
سارے علوم کی جان یہ ہے کہ تو جانے کو اس باز پرس (قیامت) کے دن تیرا درجہ کیاہوگا۔ اپنی اصل پر غور کر جو تیرے سامنے ہے۔ اصول یا معقولات جاننے سے بہتر ہے کہ تو اپنی اصلیت کو جانے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 135)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.