Sufinama

مچّھر کی فریاد حضرت سلیمان کے پاس۔ دفترِسوم

رومی

مچّھر کی فریاد حضرت سلیمان کے پاس۔ دفترِسوم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    گھاس اور چمن کے پتوں سے مچھر نے آکر حضرت سلیمان سے فریاد کی کہ اے سلیمان! آپ انسان وحیوان، جن وپری کا انصاف کرتے ہیں، ہوائی پرندے اور دریائی مچھلیاں سب آپ کی عدالت کی پناہ میں ہیں، وہ کون بدنصیب ہے جس نے آپ کی سرپرستی کا سہارا نہیں ڈھونڈا؟ ہماری داد کو پہنچیں کہ ہم بہت تکلیف میں ہیں اور انصاف سے محروم ہیں۔سلیمان نے پوچھا کہ اے انصاف طلب کرنے والے بتا تو کس کے مقابلے میں انصاف چاہتا ہے۔ وہ کون ظالم ہے جس نے اپنی مونچھوں کے غرور پر تجھے ستایا اور تیرا منہ نوچا۔ ہمارے زمانۂ حکومت میں وہ کون شخص ہے جو ظلم کرنے میں بے باک ہو؟مچھر نے عرض کی کہ ہم ہوا کے ہاتھوں بڑی مصیبت میں ہیں اور اس کے ظلم سے اس قدر تنگ آگئے ہیں کہ اب سوا فریاد کے کوئی علاج نہیں۔ اے بخشش و بخشایش کرنے والے عادل! آپ ہماری داد کو پہنچئے اور اس سے ہمارا بدلا لیجئے۔

    پس حضرت سلیمان نے کہا کہ اے سریلی راگنی گانے والے خدا نے مجھے حکم دیا ہے مدعا علیہ کا جواب لیے بغیر مدعی کی فریاد کو تسلیم نہ کر۔ اکیلا مدعی ہزار واویلا مچائے خبردار بغیر مدعا علیہ کا جواب سنے ہوئے کسی کا دعویٰ قبول نہ کر! میری مجال نہیں کہ حکم الٰہی سے سرتابی کروں۔ لہٰذا جا اور اپنے مخالف فریق کو میرے پاس بلا لا۔ مچھر نے عرض کی کہ حضور کا حکم سند ہے لہٰذا عرض ہے کہ میری دشمن ہوا ہے اور وہ آپ کی تابع فرمان ہے۔

    یہ سن کر حضرت نے فوراً پکارا کہ اے ہوا مچّھر نے تجھ پر دعویٰ کیا ہے، تاریکی سے باہر نکل، چل اپنے مدعی کے مقابل آ اور اپنی صفائی پیش کر۔

    ہوا حکمِ شاہی سن کر سنسناتی ہوئی جونہی پہنچی مچّھر اسی دم بھاگ نکلا حضرت سلیمانؑ نے للکارا ارے مچّھر کہاں جاتا ہے۔ ٹھہر تاکہ دونوں فریق کی بات سن کر فیصلہ کروں۔ مچّھر نے کہا کہ اے بادشاہ اس کی موت میں میری موت ہے۔ میری زندگی کے دن اسی کے دھنویں سے کالے ہیں جہاں وہ آجائے میرے پاؤں کیوں کر ٹک سکتے ہیں کہ ہوا سے میری جان کا انس نکل جاتا ہے۔

    اے عزیز! یہی حال بارگاہِ الٰہی کے ڈھونڈنے والے کا ہے جہاں خدا نے جلوہ فرمایا کہ ڈھونڈنے والا گم ہوا۔ اگرچہ وہ وصال مسلسل بقا ہے لیکن اس بقا کا آغاز اپنی فنا سے ہوتا ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 147)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے