ایک چمڑا رنگنے والے کا عطّاروں کے بازار میں بے ہوش ہونا۔
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک چمڑا رنگنے والا اتفاق سے عطاروں کے بازار میں پہنچا تو یکا یک گر کر بے ہوش ہوگیا اور ہاتھ ٹیڑھے ہوگئے۔ عطروں کی خوشبو جو اس کے دماغ میں گھسی تو چکرا کر گر پڑا۔ اسی وقت لوگ جمع ہوگئے۔ کسی نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا اور کسی نے عرقِ گلاب لاکر چھڑکا۔ اور یہ نہ سمجھے کہ اسی خوشبو نے یہ آفت ڈھائی ہے ۔کوئی سر اور ہتھیلیوں کو سہلاتا اور سوندھی مٹی بھگو کر سنگھاتا۔ ایک لوبان کی دھونی دیتا تو دوسرا اس کے کپڑے اتار کر ہوا دیتاتھا۔ آخر جب کسی تدبیر سے ہوش میں نہ آیا تو دوڑ کر اس کے بھائی بندوں کو خبر کی کہ تمہاری قوم کا آدمی فلاں بازار میں بے ہوش پڑا ہے۔ کچھ نہیں معلوم کہ یہ مرگی کا دورہ اس پر کیوں کر پڑ گیا یا کیا بات ہوئی کہ وہ سرِ بازار چلتے چلتے اس طرح گر پڑا۔ اس چمڑا رنگنے والے کا ایک بھائی بڑا فطرتی اور ہوشیار تھا۔ یہ قصّہ سنتے ہی دوڑا آیا ۔ تھوڑا سا کتّے کا گُو آستین میں چھپائے بھیڑ کو چیر کر روتا پیٹتا اس تک پہنچا۔ لوگوں سے کہا کہ ذرا ٹھہرو مجھے معلوم ہے کہ یہ بیماری کیوں کر پیدا ہوئی اور سبب معلوم ہوجانے پر بیماری کا دور کرنا آسان ہوجاتاہے۔
اصل میں وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے دماغ کی ایک ایک رگ میں بدبو تہہ بہ تہہ بسی ہوئی ہے۔ وہ مزدوری کی خاطر صبح سے شام تک گندگیوں اور بدبوؤں میں چمڑے رنگتا رہتا ہے چونکہ سالہا سال سے گندگی میں بسر کرتا ہے اس لیے بہت ممکن ہے کہ عطر کی خوشبو ہی نے اس کو بے ہوش کردیا ہو۔ غرض اس جوان نے سب کو ہٹا دیا تاکہ اس کےعلاج کو کوئی دیکھنے نہ پائے۔ جیسے کوئی بھیدی کھس پھس کرتا ہے اسی طرح منہ اس کے کان کے پاس لے گیا اور کُتّے کی غلاظت اس کی ناک پر رکھ دی۔ جونہی یہ بدبو بے ہوش کے دماغ میں پہنچی اس کا سٹرا ہوا دماغ بدبو سے از سرِ نو تازہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ مردے میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ہوشیار ہوگیا۔
دوستو! جس کو مشکِ نصیحت سے فائدہ نہ ہو سمجھ لو کہ وہ گناہوں کی بو، سونگھنے کا عادی ہوگیا ہے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 150)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.