Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

بادشاہ کا ایک شاعر کو انعام دینا اور وزیر کی در اندازی۔

رومی

بادشاہ کا ایک شاعر کو انعام دینا اور وزیر کی در اندازی۔

رومی

MORE BYرومی

    ایک شاعر بادشاہ کے حضور میں اشعارِ مدحیہ لکھ کر لایا۔ بادشاہ بڑا فیاض تھا۔ حکم دیا کہ ہزار اشرفیاں مع لوازم انعام دی جائیں۔ وزیر نے کہا کہ اے شہنشاہ یہ بھی کم ہے۔ دس ہزار اشرفی انعام دیجئے تاکہ بالکل مطمئن ہوجائے چنانچہ بادشاہ نے دس ہزاراشرفیاں بھی دیں اور شاعر کے لائق خلعت بھی دیا۔ شاعر کا دماغ بادشاہ کے شکر اور دعا سے گونج اٹھا۔ شاعر نے پتا لگایا کہ کس کی کوشش سے اس قدر انعام مل گیا اور میری اہلیت و قابلیت بادشاہ پر کس نے ظاہر کی؟ اہلِ دربار نے کہا کہ وہ وزیر جس کا نام حَسن ہے بہت خوش اخلاق اور کشادہ دل ہے اس کی کوشش سے یہ ہوا۔ شاعر نے اس کی مدح میں بھی ایک لمبا قصیدہ لکھا۔ چند سال کے بعد وہی شاعر کھانے کپڑے سے تنگ دست ہوگیا سوچا کہ جس بارگاہ کی بخشش و سخاوت کو آزماچکا ہوں بہتر ہے کہ اپنی ضرورت پھر وہیں پیش کروں۔ یہ سوچ کر دل میں انعام واکرام کا سودا پکاتا ہوا اسی محسن بادشاہ کے حضور میں پہنچا۔ شاعر کی سوغات تو اشعار ہوتے ہیں۔ ان کو محسن کے حضور میں پیش کرتا اور ان کی رہن کرتا ہے۔ اہلِ احسان کی سخاوت و بخشش نے شاعروں کو امیدوار کردیاہے۔ ان کے نزدیک ایک ایک شعر جو کہ سیکڑوں تھیلوں سے افضل ہے اور خاص کر وہ شاعر جو سمندر کی تہہ سے موتی لاتا ہے اس کے کلام کی تو قیمت ہی نہیں۔

    الغرض بادشاہ نے اپنی عادت کے مطابق پھر ہزار اشرفی انعام دینے کا حکم دیا لیکن اس دفعہ وہ حاتم دل وزیر انتقال کرچکا تھا۔ اس کی جگہ ایک دوسرا بہت بے رحم اور کنجوس مقرر ہواتھا۔ وزیر نے عرض کی کہ جہاں پناہ! سلطنت میں بہت سے ضروری اخراجات ملتوی پڑے ہیں۔ اتنا بڑا انعام ایک شاعر کو دینا مناسب نہیں۔ اگر حکم ہو تو میں اس انعام کے ایک چوتھائی پر شاعر کو راضی کر لوں۔ امرائے دربار نے کہا بھی کہ وہ اگلی دفعہ اس دل والے بادشاہ سے دس ہزار انعام لے چکا ہے۔ گنّا چوسنے کے بعد نرسل کی پھُنکنیاں کیوں کر چبائے گا اور بادشاہی کے بعد گدائی کیسے کرے گا؟ وزیر نے کہا میں اس کو اس قدر تنگ کروں گا کہ انتظار کرتے کرتے رو دے گا۔ اس کے بعد اگر میں راستے کی مٹی بھی اٹھا کر دوں گا تو وہ پھول کی پتیاں سمجھ کر ہاتھو ں ہاتھ لے گا۔ سلطان نے فرمایا کہ اچھا جو تیرے جی میں آئے وہ کر لیکن بہر حال اس کے دل کو خوش کر دے کہ ہمارا مدّاح اور دعا گو ہے۔ وزیر نے کہا وہ تو کیا اس جیسے دو سو فقیر بھی ہوں تو میرے حوالے کر کے آپ بے فکر ہوجائیں۔

    القصہ وزیر نے انعام میں ڈھیل دے دی یہاں تک کہ سارے جاڑے کا موسم گزر گیا اور موسمِ بہار آگیا۔ شاعر نے جس قدر زیادہ اپنی ضرورت کے لیے بے قراری ظاہر کرتا تھا وزیر اسی قدر وعدہ پورا کرنے میں حیلے حوالے نکالتا تھا۔ مایوس ہوکر وزیر سے عرض کی کہ چاہے بجائے انعام اور صلے کے آپ مجھے گالیاں ہی دیں تو میں جانوں کہ سب کچھ بھر پایا اور آپ کی دعا گوئی میں مصروف ہوجاؤں۔ اس انتظار نے تو میری جان نکال لی۔ کم ازکم مجھے صاف جواب ہی دے دیجئے تاکہ میری جان اس لالچ کے پھندے سے آزاد ہو۔ وزیر نے اس انعام کا چوتھائی دے دیا اور شاعر اس فکر اور تردد میں پڑ گیا کہ اس دفعہ کتنا بڑا انعام مل گیاتھا اس دفعہ ایک کانٹوں بھری ڈالی اس قدر دیرسے ملی۔ لوگوں نے کہا وہ فیاض وزیر جس کے زمانے میں گراں بہا انعام دخلعت ملا تھا وہ بے چارہ چل بسا ۔خدا اس کو جزائے خیر دے اب وہ نہیں رہا تو فیاضی بھی نہیں رہی۔

    پس اب جو کچھ دیا ہے اسے لے اور راتوں رات یہاں سے نکل جا۔ کہیں یہ بھی نہ چھین لے۔ ارے بے خبر! اتنا بھی جو اس کی مٹھی سے ہم نے کھلوادیا ہے تو اس میں بھی بڑے بڑے چلتر کرنے پڑے ہیں۔ شاعر نے ان سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ مہر بانو! یہ بتاؤ کہ یہ گنوار آیا کہاں سے، اس کفن چور وزیر کا نام کیا ہے؟ لوگوں نے کہا اس کا نام بھی حسن ہے۔ شاعر نے کہا بارِ الٰہا ان دونوں کا نام ایک ہی کیسے ہوگیا؟ ایک حسن تو وہ تھا کہ اس کے ایک گردشِ قلم سے سینکڑوں وزیر و امیر فیض پاتے تھے، ایک یہ حسن ہے کہ اس کی بدنما ڈاڑھی سے فقط رسیاں ہی بٹی جاسکتی ہیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 155)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے