Sufinama

بادشاہ اور کنیز۔ دفتراول

رومی

بادشاہ اور کنیز۔ دفتراول

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    دوستو! ایک قصہ سنو، جو ہمارے حال پر صادق آتا ہے۔ اگر اپنے حال کو ہم پرکھتے رہیں تو دنیا اور آخرت دونوں جگہ پھل پائیں۔

    اگلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا جسے دنیا ودیں دونوں کی بادشاہی حاصل تھی۔ ایک دن شکار کے لئے مصاحبوں کے ساتھ سوار ہوکر نکلا۔ گھوڑا دوڑاتا پھرتا تھا کہ یکا یک عشق کا شکار ہوگیا۔

    سرِ راہ ایک لونڈی پرنظر پڑی۔ دیکھتے ہی دل وجان سے اس کا غلام ہوگیا۔ منہ بولی قیمت دے کر لونڈی کو مالک سے خریدا۔ بادشاہ نے اسے اپنا بیگم بنالیا۔ اتّفاق دیکھئے وہ بیمار ہوئی۔ بادشاہ نے اپنے ملک اور بیرونِ سلطنت کے حاذق حکیموں کو علاج کے لئے جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ میری جان بھی اسی کی زندگی پر منحصر ہے بلکہ یقین جانو کہ خود میں بیمار ہوں اور جب تک وہ اچھی نہ ہوجائے میں تندرست نہیں ہوسکتا۔ جو طبیب مرض شناس میری جان کو آسایش پہنچائے گا وہ بے اندازہ دولت سے مالا مال کردیا جائے گا۔

    طبیبوں نے عرض کیا کہ اےبادشاہ ہم میں سے ہر ایک مسیحِ زمانہ ہے۔ بھلا وہ کون سی بیماری ہے جس کی دوا ہمارے پاس نہیں، ہم اپنی جان لڑادیں گے اور تشخیصِ مرض و علاج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔

    انہوں نے شیخی میں یہ بھی نہیں کہا کہ خدا چاہے گا تو علاج کامیاب ہوگا۔ خدا نے اپنی قدرت کے آگے انسانی تدبیر کی کمزوری اس طرح ظاہر کی کہ انہوں نے علاج میں جس قدر زیادہ سرگرمی دکھائی اسی قدر بیماری اور بڑھتی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کنیز سوکھ کے کانٹا ہوگئی اور اُدھر یہ حال کہ روتے روتے بادشاہ کی آنکھوں سے خون کے دریا بہہ نکلے۔

    خدا کی قدرت! سنکجبین سے صفرا اور روغنِ بادام سے خشکی پیدا ہوتی تھی۔ ہڑسے قبض ہونے لگا۔ غرض دواؤں کی تاثیر اتنی بدلی کہ جو چیز مريضہ کی صحت اور آرام کے لئے دی جاتی تھی اس سے تکلیف سوا ہوجاتی تھی۔ رفتہ رفتہ بیمار کا دل ضعیف ہوگیا، نیند بالکل اچٹ گئی۔ آنکھوں میں جلن اور دل میں دھڑکن رہنے لگی۔ نتیجہ یہ کہ سارے شربت، دوائیں اور تیمارداری کے سامان بے کار ثابت ہوئے اور طبیب بھی شرمندہ ہوئے اور طبیبوں کی ساری شیخی کرکری ہوگئی۔

    جب بادشاہ نے اچھی طرح دیکھ لیا کہ طبیبوں کے بنائے کچھ نہیں بنی تو ایک رات ننگےپاؤں سجدے میں گر کر اس قدر پھوٹ پھوٹ کر رویا کہ سجدے کی جگہ آنسوؤں سے ترہوگئی۔ جب ذرا دل ٹھہرا تو دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا کہ بارِ الٰہ! سارے جہان کی بادشاہت بخش دینا تیری ادنیٰ بخشش ہے ۔اس کے مقابلے میں یہ بندہ جو آروزو لے کر حاضر ہوا ہے وہ کیا حقیقت رکھتی ہے۔ ہماری ساری دو ا دوِش اور ان طبیبوں کی تدبیر تیری رحمت کے اشارے کے آگے گرد ہیں۔ اےسارے عالم کے حاجت روا! ہم نے بہت ہی غلط راستہ اختیار کیا کہ تجھ سے مدد نہ چاہی اور اپنی کمزورتدبیروں پر اڑے رہے۔ اے سارے جہان کی فریاد سننے والے! تو نے خود ہی فرمایا ہے کہ میں ہر بندے کے دل کی بے تابی سے واقف ہوں مگر بخشش اور عطا اسی پر کی جاتی ہے جو علانیہ بھکاری بن کر ہماری بارگاہ میں ہاتھ پھیلائے! بادشاہ نے ایسی تڑپ کر دعا کی تھی کہ دریائے رحمت میں جوش آگیا۔ بادشاہ کو نیند کی سی غنودگی طاری ہوئی۔ خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ ایک مردِ بزرگ تشریف لائے ہیں، فرماتے ہیں کہ اے بادشاہ! مبارک ہو تیری دعا قبول ہوئی۔ کل ہمارا بھیجا ہوا ایک مسافر آئے گا، وہ بڑا دانا حکیم ہے اور اس کی صداقت میں ذرا شک نہیں ۔اس لئے تجھ پر لازم ہے کہ اس کی ہر ہدایت کی تعمیل کرے اس کے علاج کی کرامت تجھے خود معلوم ہوجائے گی۔

    بادشاہ یہ خواب دیکھتے ہی چونک اٹھا۔ غفلت کے پردے اٹھ گئے۔ کنیز کی محبت نے غلام بنا رکھا تھا۔ اب گویا از سرِ نو آزادی اور بادشاہی پائی۔ جب دن نکلا اور آفتاب مشرق سے بر آمد ہوا تو بادشاہ بالاخانے کے برآمدے میں آبیٹھا۔ راستے پر نگاہ لگی ہوئی تھی کہ دیکھئے پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہے کہ مردِ بزرگ صاحب کما ل سایے میں دھوپ کی طرح چلے آتےہیں۔ جب قریب پہنچے تو دیکھا سر سے پیر تک نور جھمک رہا ہے۔ بادشاہ خود پیشوائی کو آگے بڑھا۔ اس غیبی مہمان سے بادشاہ اس طرح ملا جس طرح کہ شکر گلاب کی پتیوں میں پیوست ہوجاتی ہے۔ یوں سمجھو کہ جیسے دو جانیں باہم بخیہ ہوکر ایک ہورہی تھیں۔ ان کی ایسی مثال تھی جیسے ایک پیاسا اور دوسرا پانی یا ایک مئےپرست اور دوسرا شراب، الغرض اسےدیکھ کر بادشاہ نے (اپنے جی میں کہا) کہ اے مردِ خدا میرا معشوق تو در اصل توتھا لیکن جہان میں ایک کام دوسرے کام کے ذریعے سے پیدا ہوا کرتا ہے، سو اس عشق کا ذریعہ کنیز کا عشق ہوا۔ اے فرستادۂ خدا! تو میرے حق میں مصطفیٰ کا درجہ رکھتا ہے۔ اب میں عمرؓ کی طرح تیری خدمت و اطاعت پر کمر بستہ رہوں گا۔

    الغرض بادشاہ باوجود شوکت و حشمت کے بالکل فقیرانہ خاکساری کے ساتھ اپنے مہمان کے سامنے گیا۔ کبھی ہاتھوں کو چومتا، کبھی پیشانی کو بوسہ دیتا، کبھی وطن اور سفر کا راستہ دریافت کرتا۔ یوں ہی پوچھتا اپنے ایوانِ شاہی میں لے گیا اور جی میں خوش ہوکر کہنے لگا کہ میں نے یہ بے قیاس دولت تو پائی مگر بڑے صبر کے بعد یہ صبر تلخ تو ہوتا ہے لیکن اس کا پھل میٹھا اور نتیجہ کامیاب دیکھا۔

    مہمان کو کھانا کھلایا اور ماندگی سفر دور ہونے کے بعد حرم سرائے شاہی میں لے جاکر بیمار کو دکھایا اور حالات مرض بیان کئے۔ وہ خدا کے ولی بیمار کے پاس بیٹھ گئے، چہرے کا رنگ، نبض، قارورہ وغیرہ دیکھ کر مرض کی علامتیں اور تمام ابتدائی اسباب دریافت کر کے کہا کہ جو دوا ان طبیبوں نے کی وہ سب بالکل غلط تھی۔ ولی اللہ نے ظاہری صورت سے پوشیدہ مرض تاڑلیا لیکن بادشاہ کو اس کی خبر نہ دی۔ در اصل اس کی بیماری صفرا یا سودا کی زیادتی سے نہ تھی۔ ہر لکڑی اپنے دھنویں سے پہچانی جاتی ہے۔ جب ولی اللہ نے پہچان لیا کہ اسے دل کی بیماری ہے اور باقی بالکل تندرست ہے تو بادشاہ سے مخاطب ہوا اور کہا اے بادشاہ مجھے مريضہ سے کچھ پوچھنا ہے، چاہتا ہوں کہ سب اپنے بیگانے یہاں سے الگ کر دیئے جائیں۔ بادشاہ نے محل میں تنہائی کرادی اور خود بھی باہر چلا گیا تاکہ ولی اللہ اپنے حسبِ منشا حال دریافت کرسکیں۔

    جب سارا محل خالی ہوگیا اور سوائے طیبب و مريض کے کوئی نہ رہا تو ان بزرگ نے آہستہ آہستہ سوالات شروع کئے کہ تمہارا شہر کون سا ہے کیوں کہ ہر شہر کا طریقِ علاج الگ ہوتا ہے اور تمہارے قرابت دار کون کون سے ہیں، ان میں زیادہ نزدیک کے عزیز کون ہیں اور ان میں سب سے زیادہ محبت کن سے ہے۔ نبض پر ہاتھ رکھ کر زمانے کے تلخ وتُرش کی داستانیں سننے لگے۔ مريضہ بھی حکیم کو کامل پاکر ہر راز کو فاش کرنے لگی، جہاں جہاں وہ فروخت ہوئی اور جن جن شہروں میں رہی سب حال صاف صاف بیان کیا۔ وہ بزرگ سلسلے وار اس کی داستان سن رہے تھے لیکن پوری توجہ اس کی نبض پر تھی کہ دیکھیں کس کے ذکر پر نبض غیر معمولی حرکت کرتی ہے۔

    القصہ کنیز نے اپنے شہر کے تمام دوستوں، عزیزوں کو گنایا اس کے بعد دوسرے شہر کا تذکرہ کیا مگر چہرے کے رنگ اور نبض کی حرکت میں کوئی فرق نہ آیا۔ یہ پوچھ یوں ہی آگے بڑھتی گئی،ایک ایک شہر اور ایک ایک مکان کے واقعے اور حادثے اس نےسنائے مگر نہ چہرے کے رنگ میں کوئی فرق آیا نہ نبض میں کوئی حرکت خلافِ معمول پیدا ہوئی ۔یہاں تک کہ رفتہ رفتہ شہر سمر قند کا ذکر زبان پر آیا۔ اس کے ذکر کے ساتھ ہی اس نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور بیان کیا کہ ایک سوداگر مجھے اس شہر میں لایا اور ایک مالک کے ہاتھ جو سنار تھا مجھے فروخت کردیا، اس نے مجھے چھ مہینے تک اپنے پاس رکھا اور اس کے بعد بیچ ڈالا۔ جب وہ اس واقعے کو بیان کررہی تھی تو غم کی آگ دفعتاً بھڑک اٹھی، اس کی نبض حرکت میں آئی اور چہرہ زرد پڑگیا۔ جب ان بزرگ کو اس بھید سے آگاہی ہوئی تو مريضہ کی بیماری کے طول کھینچنے کا سبب معلوم ہوگیا۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ زر گر کس محلے اور کس بازار میں رہتا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ محلہ غاتفر میں پُل کے پاس رہتا ہے۔ جب سارے اتے پتے پوچھ لیے تو ان بزرگ نے بہت کچھ دلا سا دیا کہ اب یقین کر کہ تیری بیماری گئی۔ چوں کہ مجھے تیری بیماری کی اصلیت معلوم ہوگئی ہے۔ انشاء اللہ تیرے علاج میں جادو کی کیفیت ظاہر ہوگی۔ مگر ایک پابندی ضروری ہے وہ یہ کہ یہ بھید تو کسی سے بیان نہ کرے چاہے بادشاہ تجھ سے کتنا ہی کرید کرید کر پوچھے تو اس پر بھی ظاہر نہ کیجیو۔

    پھر وہ بزرگ مريضہ کے پاس سے اٹھ کر بادشاہ کے پاس آئے اور اپنی مصلحت کے مطابق مریضہ کا کچھ حال سنا کر مطمئن کردیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ حضرت اب تدبیر کیا ہے اور علاج شرو ع کرنے میں کیا دیر ہے۔ بزرگ نے کہا کہ اس کی بیماری کا علاج تو بس یہی ہے کہ سمر قند سے ایک سنار طلب کیا جائےاس کو انعام و اکرام کا امیدوار بنایا جائے اور اس کے لئے اشرفیاں اور خلعت روانہ کیا جائے تاکہ وہ اس لالچ میں آکر تیرے پاس حاضر ہو اور تیرا محبوب اس کی ملاقات سے ایسا خوش ہوکہ یہ غم اور بیماری جارتی رہے۔ جب سنار تیری اتنی داد و دہش دیکھے گا تو وہ اپنے گھر بار سے جدا ہوکر یہیں آپڑے گا۔

    بادشاہ نے اس ہدایت کو دل و جان سے قبول کیا اور عرض کیا جو حکم آپ دیں گے میں اس کی تعمیل کروںگا۔ پھر دو امیر روانہ کیے جو بڑے ذی شعور، امانت دار اور سچے تھے۔ وہ دونوں کے دونوں سمر قند پہنچے اور زرگر کو بادشاہ کے بلاوے کی یہ خوش خبری دی کہ اے استاد تیرا چرچا تمام دنیا میں ہورہا ہے، ہمارے بادشاہ نے زیورات کی تیاری کے لئے تجھے امیر بنادینے کا ارادہ کیا ہے۔ چنانچہ یہ خلعت اور دینار و درہم تیرے لئے بھیجے ہیں اور جب تو دارالسلطنت میں حاضر ہوگا تو بادشاہ کا مصاحبِ خاص تو ہی رہے گا۔ زرگر نے جب اتنا کثیر مال اور بیش بہا خلعت دیکھا تو پھولا نہ سمایا، اپنے وطن اور بال بچوں کو چھوڑ دینے کی ٹھان لی۔ خوشی خوشی مسافت طے کرنے لگا اور اس بات سے بے خبر تھا کہ بادشاہ نے اس کی جان لینے کا قصد کیا ہے۔ ایک عربی گھوڑے پر سوار ہوکر بہت تیزی سے دوڑتا ہوا چلا اور اپنے خوں بہا کو خلعت سمجھا۔ جب وہ مردِ مسافر دارالسلطنت میں پہنچا تو طبیب نے اس کو حضورِ شاہ میں بڑی خوشی اور اظہارِ کامیابی کے ساتھ پیش کیا کہ وہ شمع حسن پر جلایا جائے۔

    بادشاہ نے زرگر کی بہت خاطر کی اور سونے کا ایک ڈھیر اس کے سپرد کر کے حکم دیا کہ ہنسلی، جھانحن، کمر پٹہ، گھوڑوں کی زینت کے زیور اور وہ تمام برتن اور آرایشی ظروف جو بادشاہوں کی بزم کے لائق ہوں تیار کئے جائیں۔ زرگر نے وہ سب سونا لیا اور بالکل بے خبر اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ ان ولی اللہ نے سلطان سے عرض کیااے بادشاہِ ذی جاہ اس کنیز کو زر گر کے حوالے کر تاکہ وہ اس کی ملاقات سے آرام پائے۔ بادشاہ نے حسینہ کو زرگر کے حوالے کردیا۔ چھ مہینے تک دونوں یک جان و دو قالب رہے۔ جب کنیز کا دل بھر گیا تو حکیم نے زرگر کے واسطے ایک ایسا شربت تیار کیا کہ وہ پی کر روز بروز کمزور ہونے لگا۔ بیماری کی وجہ سے اس کا حسن وجمال پھیکا پڑنے لگا تو رفتہ رفتہ کنیز کا دل بھی اچٹنے لگا۔ اور جب بالکل بدشکل، بد مزاج اور ہڈیوں کا ڈھانچا رہ گیا تو بالکل ہی سرد ہوگیا۔

    جوں جوں مردِ زرگر پر بیماری کا غلبہ ہوتاتھا وہ سونے کی طرح پگھلا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ میں وہ مشکی ہرن ہوں کہ صیاد نےجس کی ناف سے سارا خون نکال ڈالا ہو مگر جس نے اپنی غرض کے لئے مجھے موت کے گھاٹ اتار اہے وہ یہ نہیں جانتا کہ میرا خون یونہی سوتا کا سوتا نہیں رہے گا۔ جو بلا آج مجھ پر ہے کل اس پر بھی آئے گی۔ بھلا مجھ جیسے حسین و خوش روجوان کا خون ضائع ہوسکتا ہے۔ یہ آخری فقرے تھے جوکہتے کہتے ٹھنڈا ہوا اور کنیز درد ورنج کی آفت سے چھوٹی کیوں کہ قاعدہ ہی یہ ہے کہ مرنے والوں کے ساتھ عشق دیر پا نہیں ہوتا کیوں کہ وہ پھر پلٹ کر آنے والے نہیں مگر زندہ کا عشق نہ صرف جان میں بلکہ آنکھوں میں بھی پھول کی کلی کی طرح ہر دم تازہ رہتا ہے۔ لہٰذا تجھ کو اس زندہ سے عشق کرنا چاہئے جو ہمیشہ باقی رہنے والا اور ایسا باقی ہے جو ہر آن تجھ کو شرابِ حیات پلاتار ہتا ہے۔ عشق اس کا اختیار کر جس کے عشق سے تمام انبیا نے فروغ پایا اور یہ کہنا تو کوئی بات نہیں کہ اس بارگاہ تک ہماری رسائی ممکن نہیں ۔اجی بڑے سے بڑے کام بھی دریا دلوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں۔

    ولی اللہ کی تدبیر سے مردِ زرگر کا مارا جانا نہ توکسی خطاب کی توقع سے ہوا اور نہ کسی عتاب کے خوف سے۔ بات یہ ہے کہ جب تک خد اکی طرف سے اشارہ نہ ہوا انہوں نے صرف بادشاہ کی خوشنودی کی خاطر یہ کام نہیں کیا اور بادشاہ نے بھی ایک بندۂ خدا کا خون محض نفسانیت کے لئے نہیں کیا۔

    وہ حکیم اغراضِ نفسانی سے بالکل پاک تھا اور جو کچھ اس نے کیا وہ نیکی پر مبنی تھا لیکن وہ نیکی بدی کے پردے میں پوشیدہ تھی۔ اگر کسی مسلمان کا خون بہانا اس کا مقصد ہو اور باوجود اس کے میں اس کی تعریف کروں تو میں کافر! اِدھر وہ بادشاہ بھی معمولی بادشاہ نہ تھا بلکہ باخدا اللہ کا خاص بندہ۔ تم اپنے احوال و افعال کے لحاظ سے خدا کے پاک بندوں کے احوال و افعال پر قیاس کرتے ہومگر در اصل صحیح نتیجے سے تم بہت دور جاپڑے ہو ۔لہٰذا تم طریق انکار و اعتراض میں جلدی نہ کرو۔ دیکھو میں تمہیں ایک اور قصہ سناتا ہوں شاید تمہارا نصیب یاوری کرے اور تم کوئی اچھی نصیحت حاصل کرلو۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول
    • Author :مولانا رومی
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے