Sufinama

حضرت علی پر ایک کافر کا تھوکنا اور آپ کا اس کے قتل سے باز رہنا۔ دفتراول

رومی

حضرت علی پر ایک کافر کا تھوکنا اور آپ کا اس کے قتل سے باز رہنا۔ دفتراول

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    حضرت علی کے عمل سے اخلاص کا طریق سیکھ۔ وہ خدا کے شیر تھے۔ ان کا فعل نفسانیت سے پاک تھا۔ ایک جنگ میں جب ایک دشمن زد میں آیا تو آپ تلوار سونت کر جھپٹے۔ اس نے حضرت علی کے چہرۂ پر نور پر جوہر نبی و ولی کا فخر تھے، تھوک دیا۔ اس نے ایسے چہرے پر تھوکا کہ اگر چاند بھی مقابل آئے تو اس کے سامنے سجدہ بجا لائے ،مگر حضرت علی اپنا غصہ پی گئے اور اسی وقت تلوار پھینک کر اس کافر پہلوان سے کنارہ کرنے لگے۔ وہ پہلوان آپ کی اس حرکت سے حیران ہوگیا کہ بھلا اظہارِ عفو اور رحم کا یہ کیا محل تھا۔ اس نے پوچھا کہ تم نے مجھ پر ابھی تو شمشیرِ آب دار کھینچی اور ابھی کے ابھی تلوار پھینک کر مجھے چھوڑ دیا۔ اس کا کیا سبب ہے؟ میری جنگ آزمائی میں تم نے ایسی کیا بات دیکھی کہ مجھ پر غالب آنے کے بعد بھی مقابلے سے ہٹ گئے۔ آپ نے فرمایا میں صرف خدا کے لیے تلوار مار تاہوں کیوں کہ خدا کا بندہ ہوں، اپنے نفس کا بندہ نہیں ہوں۔ خدا کا شیر ہوں خواہشاتِ نفس کا شیر نہیں ہوں اور یہی میرا عمل میرے دین کا گواہ ہے۔

    غضب و غصہ بادشاہوں پر حکمراں اور ہمارا غلام ہے۔ اس لیے غضب و غصے پر میں نے زین ولگام لگالی ہے۔ میرے صبر کی تلوار نے میرے غضب و غصے کی گردن ماردی ہے اور حق کا غضب بھی مجھ پر رحمت کی طرح چھایا ہوا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے نوکر کے کان میں فرمایا کہ ایک دن وہ میرا سر تن سے جدا کردے گا۔ وہ نوکر مجھ سے کہتا رہتا ہے کہ آپ پہلے ہی مجھے قتل کر دیجئے کہ ایسی سنگین خطا مجھ سے سرزد نہ ہونے پائے مگر میں اسے یہی جواب دیتا ہوں کہ جب میری موت تیرے ہاتھ سے ہونے والی ہے تو میں خدا کے مقابلے میں حیلہ کیوں تراشوں اس طرح میں دن رات اپنے قاتل کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں مگر مجھے اس پر غصّہ نہیں آتا کیوں کہ آدمی کو جس طرح اپنی جان پیاری ہے اسی طرح مجھے موت پیاری ہے کیوں کہ یہی موت میری دوسری زندگی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہے۔ بے موت مرنا ہم پر حلال ہے اور بے سامان جینا ہمارے لیے ذلت ہے۔

    پھر حضرت امیر المؤمنین نے اس پہلوان سے کہا کہ اے جوان! جب کہ جنگ آزمائی کے وقت تونے میرے منہ پر تھوکا تو میرے نفس کو حرکت ہوئی اور میری نیت کی غرض و غایت آدھی خدا کےواسطے اور آدھی اپنے نفس کی طرف سے ہوگئی۔ حالانکہ خد اکے کام میں دوسرے کی شرکت جائز نہیں۔ تو میرے مالک کے ہاتھ کی بنائی ہوئی صورت ہے اور تو اس کی مِلک ہے میر ی نہیں۔ خدا کے نقش کو خدا ہی کے حکم سے توڑنا چاہئے اور دوست کے شیشے پر اسی کا پتھر مارنا چاہئے۔

    اس کافر پہلوان نے جو یہ تقریر سنی تو اس کے دل میں ایک نور پیدا ہوا اور اس نے زنّار توڑ ڈالی اور کہا کہ ہائے افسوس !میں اب تک ظلم کے بیج بو رہا تھا۔ میں تو تجھے کچھ اور سمجھتا تھا لیکن تو خدا کا اندازہ لگانے کی نہ صرف ترازو ہے بلکہ ہر ترازو کی ڈنڈی ہے۔ میں اس شمع کی خصلت والے چراغ کا غلام ہوں کہ جس سے تیرے چراغ نے روشنی پائی ہے۔ میں اس دریائے نور کی موج کا غلام ہوں جو ایسے ایسے موتی باہر لاتی ہے۔ لہٰذا مجھے اپنے مذہب کا کلمۂ شہادت سکھا کیوں کہ میں نے تجھ کو اپنےسے زیادہ سر بلند پایا۔

    القصہ اس پہلوان کے قریب جس قدر اس کے رشتے دار اور اہل قوم جمع تھے سب نے پروانہ وار دینِ اسلام قبول کیا۔ حضرت نے صرف تیغِ حلم سے اتنی خلقت کو بندۂ حلقہ بگوش بنایا اور ان کے گلوں کو شمشیرِ آب دار سے بچا لیا۔ لہٰذا تیغِ حلم تیغِ فولاد سے زیادہ تیز بلکہ فتح و کامرانی میں سولشکروں پر فائق ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 46)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے