ایک مسافر صوفی کے گدھے کو صوفیوں کا بیچ کھانا۔ دفتردوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
عبرت کے طورپر یہ قصہ سن تاکہ تم تقلید کی آفت سے خبردار ہوجاؤ۔ ایک صوفی بحالتِ سفر کسی خانقاہ میں پہنچا اور اپنے گدہے کو اصطبل میں باندھ کر ڈول میں پانی بھر کر پلایا اور گھاس اپنے ہاتھ سے ڈالی۔ یہ صوفی ویسا غافل صوفی نہ تھا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ اس نے اپنی طرف سے گدھے کی دیکھ بھال میں کچھ کمی نہیں کی لیکن جب امرشدنی ہو تو احتیاط سے کیا ہوتا ہے۔ اس خانقاہ کے صوفی سب مفلس قلاش تھے اور جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ بعض دفعہ محتاجی کفر تک پہنچادیتی ہے۔ اے تونگر تو پیٹ بھرا ہے کسی درد مند فقیر کی کج روی کا مذا ق نہ اڑا۔
غرض وہ گروہِ صوفیا گدھے کو بیچ ڈالنے کے در پے ہوا اور تاویل اپنے گناہ کی یہ کی کہ ضرورت پر مردار بھی حلال ہوجاتا ہے۔ پھر سب نے مل کر وہ گدھا بیچ دیا اور مزے مزے کے کھانے لائے اور خوب روشنی کی۔ ساری خانقاہ میں دھوم مچ گئی کہ آج رات کو کھانا بھی ہے اور سماع بھی۔ آخر یہ تکلیف اور تین دن کا روزہ کب تک اور کب تک جھولیاں لے کر بھیک مانگتے پھریں۔ آخر ہم بھی تو خدا کے بندے ہیں۔ ہم بھی جان رکھتے ہیں، اس لئے جو ہو سو ہو آج تو ہم بھی دولت کی مہمان داری کریں گے۔ وہ مسافر صوفی اصل حال سے بے خبر یہ راگ رنگ دیکھ رہاتھا۔ اتنے میں خانقاہ والے سب اس کی طرف جھُک پڑے ۔کوئی ہاتھ پاؤں دباتا اور کوئی پوچھتا کہ حضرت کہاں تشریف رکھیں گے۔ کوئی بستر کی گرد جھٹکتا اور کوئی ہاتھ اور منہ کا بوسہ لیتا۔ مسافر صوفی نے اپنے جی میں کہا جب کہ ان صوفیوں کا میلان میری طرف اس درجہ ہے تو میں بھی کیوں نہ عیش میں شرکت کروں۔
القصہ جب سب نے عمدہ عمدہ کھاے کھا لیے تو سماع شروع ہوا، ساری خانقاہ فرش سے لے کر چھت تک گرد اور دھنویں سے اندھیری ہوگئی۔ دھنواں تو باورچی خانے کا تھا اور گرد حالتِ وجد میں پاؤ زمین پر مارنے سے پیدا ہوگئی تھی۔ کبھی تالیاں بجاتے اور دھپ دھپ ٹھوکریں لگاتے اور کبھی مارے سجدوں کے صدر دالان کی جھاڑودیتے۔ جب سماع انتہا کو پہنچا تو قوال نے ایک آستائی بلند سروں میں چھیڑدی اور ’’گدھا رخصت ہوا، گدھا رخصت ہوا‘‘ کی ٹیپ ایسی الاپنی شروع کی کہ اہلِ سماع میں حرارت کی رَو دوڑ گئی اور وہ صوفی مسافر بھی اسی جوش و خروش میں صبح تک پاؤں پیٹا اور سب گانے والوں کے ساتھ ’’گدھا رخصت ہوا۔ گدھا رخصت ہوا‘‘ گاتا رہا۔
جب سماع اختتام کو پہنچا اور جوش و سرمتی کم ہوئی تو دیکھا کہ صبح ہوگئی۔ الوداع کہہ کر رخصت ہوئے۔ ساری خانقاہ خالی ہوگئی صرف مسافر صوفی تنہا رہ گیا تو اس نے اپنے بستر کو جھٹک جھٹکا کر باندھا اور حجرے سے باہر نکالا تاکہ جھٹ پٹ گدھے پر لاد کر ہمراہیوں کے ساتھ روانہ ہوجائے۔ مگر اصطبل میں دیکھا تو گدھا ندارد۔ اپنے جی میں کہا کہ غالباً خانقاہ کا خادم پانی پلانے لے گیا ہوگا۔ کیوں کہ کل اس نے پانی بہت کم پیا تھا۔ جب خادم آیا تو صوفی نے پوچھا کہ گدھا کہاں ہے۔ خادم نے کہا، ہائیں ذرا آپ کی ڈاڑھی تو دیکول۔ بس پھر کیا تھا لڑائی شروع ہوگئی۔ صوفی نے کہا کہ میں نے گدھا تیرے سپرد کیا تھا اور تجھ ہی کو گدھے پر نگراں کیا تھا۔ میں تجھی سے لین دار ہوں تجھ ہی کو دینا پڑے گا۔ ورنہ اگر تو زیادہ حجت کرتا ہے تو چل قاضی کے پاس تصفیہ ہوجائے گا۔ اب خادم دبا اور گِڑ گڑا کر کہنے لگا کہ میں بالکل مجبور تھا۔ سب صوفیوں نے مشورہ کر کے ایک دم حملہ کیا اور مجھے ادھ موا کردیا۔ بھلا ذرا غور تو کر کہ تو کلیجی بلّیوں کے بیچ میں ڈال دے اور پھر اس کے محفوظ رہنے کی امید کرے۔ صوفی نے کہا کہ مانا تجھ سے انہوں نے زبردستی گدھا چین لیا اور مجھ مسکین کی جان پر مصیبت نازل کی لیکن کیا تجھ سے یہ بھی نہ ہوسکتا تھا کہ میرےپاس فریاد کرتا اور کہتا کہ اے بے نوا تیرے گدھے کو لے جارہے ہیں۔
جب تک وہ لوگ یہاں موجود تھے اس وقت تک تو سو طرح کے جتن ممکن تھے لیکن اب تو وہ سب چل دیے۔ اب میں کسے پکڑوں اور کسے قاضی کے پاس لے جاؤں؟ خادم نے کہا کہ واللہ میں کئی بار آیا تاکہ تجھے ان کی کارستانیویں سے واقف کروں مگر تو خود ہی بڑے ذوق میں سب کے ساتھ گدھا رخصت ہوا۔ گدھار رخصت ہوا کہہ رہاتھا۔ جب خود تیری زبان سے میں نے سنا تو اس قیاس پر کہ تو قانع درویش ہے اور گدھے کے جانے پر راضی ہے۔ میں واپس چلا گیا۔ صوفی نے کہا اس جملے کو سب خوش آوازی سے ادا کر رہے تھے تو مجھے بھی اس کے بولنے میں مزا آنے لگا۔ ہائے مجھے ان کی تقلید نے برباد کردیا۔ ایسی تقلید پر سو بار لعنت۔ خاص کر اور ان بے حاصلوں کی تقلید جنہوں نے روٹی کے لیے اپنی عزت گنوائی۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 58)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.