ایک مقیّد طوطی کا ہندوستان کے طوطیوں کو پیغام بھیجنا۔ دفتراول
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک سودا گر کے پاس ہندوستان کا خوب صورت طوطی تھا۔ ایک مرتبہ سوداگر نے سامانِ سفر تیار کر کے ہندوستان جانے کا قصد کیا۔ رخصت ہوتے وقت گھر کے سب نوکروں تک سے پوچھا کہ ہر ایک کے لئے کیا کیا تحفے لائے جائیں۔ ہر ایک نے اپنی اپنی پسند عرض کی۔ اس نے سب سے وعدہ کیا اور طوطی سے بھی دریافت کیا کہ مجھے ملک ہندوستان جانا پڑ گیا ہے تو بتا تیری فرمایش کیا ہے؟ طوطی نے کہا جب تو وہاں کے طوطیوں کو دیکھے تو میرا حال یوں بیان کر کہ تمہاری قوم کا فلاں طوطی جو تمہاری ملاقات کا مشتاق ہے، گردشِ آسمان سے ہماری قید میں ہے۔ تم کو اس نے سلام کہا ہےاور اپنی خلاصی کا مشورہ طلب کیا ہے۔ کہنا، ممکن ہے کہ میں تمہارے اشتیاق ہی اشتیاق میں ختم ہو جاؤں۔ اور فراق میں جان دے دوں۔ کیا یہ انصاف ہے کہ میں قیدِ سخت میں گرفتا ہوں اور تم کبھی سبزے پر اور کبھی درخت پر مزے اڑاؤ۔ کیا دوستوں کے آئینِ وفا ایسے ہی ہوتے ہیں کہ میں اس قید میں گرفتار اور تم خوشبو کے باغوں میں آزاد پھرو۔
سوداگر نے وعدہ کیا کہ اس کا پیام وسلام اس کی قوم تک پہنچادے گا۔ جب ہندوستان کی حدود میں پہنچا تو جنگل میں چند طوطیوں کو دیکھا۔ گھوڑا روک کر آواز دی اور اپنے طوطی کا سلام اور وہ پیغام جوامانت تھا انہیں پہنچا دیا۔ ان طوطیوں میں سے ایک طوطی تھر تھر کانپ کر گر پڑا اور اس کا سانس اکھڑ گیا۔ مالکِ طوطی یہ خبر دے کر بہت پشیمان ہوا اور جی میں کہنے لگا کہ میں نے ناحق ایک جان لی۔ شاید یہ ہمارے طوطی کا عزیز تھا میں نے اپنی بے موقع بات سے اس غریب کو پھونک دیا۔ القصّہ جب سودا گر کاروبار تجارت سے فارغ ہوکر اپنے وطن واپس آیا تو ہر غلام کے لیے تحفہ لایا اور ہر لونڈی کو ہدیہ دیا کہ طوطی نے پوچھا کہ میری فرمایش بھی پوری کی، کیا کہا اور کیا دیکھا بیان کر۔ سوداگر نے کہا نہیں میرا جی نہیں چاہتا، میں خود کہہ کر پشیمان ہوں، اپنا ہاتھ چباتا اور انگلیاں کاٹتا ہوں کہ بیہودگی سے ایسا برا پیغام بالکل بے سمجھی اور بولے پن سے کیوں لے گیا۔ طوطی نے کہا اے میرے مالک! پشیمانی کا ہے کی۔ وہ ایسی کون سی پشیمانی ہے جس نے اس قدر غصہ اور غم پیدا کردیا ہے۔
سوداگر نے کہا کہ تیرے ہم جنس طوطیوں کے گروہ سے میں نے تیری داستان بیان کی۔ ان میں ایک طوطی تیرا درد آشنا نکلا (پیغام سنتے ہی) اس کا پتّا پھٹ گیا، کانپ کر گرا اور مرگیا۔ میں از حد پشیمان ہوا کہ پیغام ہی کیوں دیا لیکن جب منہ سے نکل گیا تو پشیمانی بے فائدہ ہے۔ سوداگر کے طوطی نے جب یہ قصّہ سنا تو وہ بھی تھر تھرا کر گرا اور ٹھنڈا ہوگیا۔ مالک نے طوطی کو اس حال سے گرا ہوا پایا تو کھڑا ہو گیا اور ٹوپی زمین پر پٹخ دی۔ رنج وغم کے مارے اپنا گریبان چاک کردیا۔ میں کہتا تھا کہ اے خوبصورت اور خوش آواز طوطی، ارے یہ تجھے کیا ہوگیا، تو ایسا کیوں ہوگیا۔ ہائے ہائے تو ایسا تھا اور تو ویسا تھا۔ آخر جب روپیٹ چکا تو اس کو پنجرے سے باہر پھینک دیا۔ فوراً طوطی اڑ کر ایک بلند ڈالی پر جا بیٹھا۔
اس مردہ طوطیٰ نے اس طرح کی پرواز کی جیسے آفتاب مشرق سے دکھاوا کرتا ہے۔ مالک پرندے کی اس حرکت پر حیران رہ گیا۔ بھلاوے میں پڑا ہوا تھا کہ یکایک پرندے کے چلتر جو دیکھے تو سر اونچا کر کے اس سے مخاطب ہوا اور کہا کہ اے میرے بلبل! اپنے حال کی تفصیل میں سے کچھ حصہ ہم کو بھی دے۔ ہندوستان کے طوطی نے کیا رمز کیا جس کو تو بھانپ گیا اور ہماری آنھوں پر اپنے مکر سے پردہ ڈال دیا۔ تونے وہ چال کھیلی کہ ہم کو جلایا اور خود روشن ہوگیا۔ طوطی نے کہا کہ اس نے اپنے عمل سے مجھے یہ نصیحت کی کہ نغمہ، آواز، خوش دلی کو ترک کر کیوں کہ تو اپنی صدا کے باعث ہی گرفتار ہوا ہے۔ صرف نصیحت کی غرض سے اس نے اپنے کو مردہ بنا لیا۔ یعنی اے پرندے تو جو عام و خاص کا دل بہلانے والا گویّا ہے تو مردہ بن جاتا کہ قید سے خلاصی پائے۔ پھر طوطی نے سلام کر کے کہا بس اب خدا حافظ اے مرے مالک! الوداع۔ تونے بڑی مہربانی کی کہ مجھے اندھیری قید سے آزاد کردیا۔ مالک (سوداگر) نے کہا، خدا کی امان، جا۔ تو جاتے جاتے مجھ کو ایک نیا راستہ دکھا گیا۔ طوطی نے وطن اصلی کا رخ کیا۔ ایک مدت صعوبتِ سفر اٹھانے کے بعد آسایش و آرام سے رہنے لگا۔ ادھر مالک نے اپنے جی میں کہا، میرے لیے اب مصلحت یہی ہے کہ طوطی کا راستہ اختیار کروں کہ وہ بالکل روشن اور صاف ہے۔
طوطی کے مرنے سے مراد نفس کو مارنا ہے۔ دیکھ موسمِ بہار میں بھی پتھر سر سبز نہیں ہوا۔ لہٰذا تو خاک ہو جاتا کہ تجھ سے رنگ برنگ کے پھول کھلیں ۔ سالہا سال تو سخت پتھر بنا رہا۔ تھوڑی سی دیر کے لیے خاک ہوکر بھی آزمایش کر۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.