ایک چوہے کا اونٹ کی نکیل کھینچنا۔ دفتردوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک چوہے کے ہاتھ اونٹ کی نکیل لگ گئی وہ بڑی شان سے کھینچتا ہوا چلا۔ اونٹ جو تیزی سے اس کے ساتھ چلا تو چوہے کے سرمیں یہ ہوا سمائی کہ میں بھی پہلوان ہوں۔ اس کے خیال کی جھلک اونٹ پر پڑی تو اس نے کہا کہ اچھا تجھے اس کا مزا چکھاؤں گا۔ چلتے چلتے ایک بڑی ندی کے کنارے پہنچے جہاں ہاتھی ڈوب جائے۔ چوہا وہاں ٹھٹک کر سرد ہوگیا۔ اونٹ نے کہا۔ اے جنگلوں پہاڑوں کے ساتھی! تم کیوں رک گئے اور یہ حیرانی کیوں ہے۔ آؤ مردانگی کے ساتھ ندی میں اترو۔ تم تو سردار اور آگے آگے چلنے والے ہو۔ مجھے اس میں ڈوب جانے کا خوف ہے۔
اونٹ نے کہا اچھا میں دیکھوں پانی کتنا گہرا ہے یہ کہہ کر ندی میں قدم رکھا اور کہا ارے اندھے چوہے! اس میں تو صرف زانو تک پانی ہے تو اس قدر حیران وپریشان کیوں ہوگیا۔ چوہے نے کہا جو چیز تیرے آگے چیونٹی ہے وہ ہمارے لیے اژدہا ہے کیوں کہ زانو، زانو میں بہت فرق ہے۔ اگر پانی تیرے زانوں تک ہے تو میرے سر سے گزوں اونچا ہے۔ اس وقت اونٹ نے کہا خبردار دوبارہ ایسی گستاخی نہ کرنا کہیں تیرا جسم وجان اس آگ میں نہ جل جائے۔ اپنے جیسے چوہوں کے آگے تم جیسی چاہے شیخی بگھار لو مگر اونٹ کے آگے چوہا زبان نہیں ہلاسکتا۔ چوہے نے کہا کہ میں توبہ کرتاہوں۔ خدا کے واسطے اس خطرناک پانی سے میری جان چھڑا۔ اونٹ کو رحم آیا اور کہا اچھا چڑھ جا اور میرے کوہان پر بیٹھ جا۔ اس طرح وار پار ہونا میرا کام ہے۔ تجھ جیسے ہزاروں کو ندی پار کرادوں گا۔
جب تو پیمبر نہیں تو مقررہ راستے سے چل تا کہ کنویں سے نکل کر ایک روز دولت وثروت پر پہنچے۔ جب تو سلطان نہیں ہے تو رعیّت بن کے رہ اور جب تو کشتی بان نہیں تو کشتی نہ چلا۔ تانبے کی طرح اکسیر کی خدمت کر، اے دل تو دلدار کے مزاج اٹھا۔ وہ دلدار کون ہیں۔ صاحبانِ دل ہیں جو آدمی کو کہیں سے کہیں پہنچادیتے ہیں۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 97)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.