Sufinama

ایک بوڑھے چَنگی کا گورستان میں خدا کے واسطے چنگ بجانا۔ دفتراول

رومی

ایک بوڑھے چَنگی کا گورستان میں خدا کے واسطے چنگ بجانا۔ دفتراول

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    تم نے سنا ہوگا کہ حضرت عمر کے زمانے میں ایک مطرب چنگ بجانے والا بڑا باکمال گزرا ہے۔ بلبل اس کی آواز سے مست ہوجاتے تھے۔ اس کی دل کش آواز کی ایک بینڈ میں سے سو آوازیں نکلتی تھیں۔ جہاں وہ گاتا تھا وہاں لوگ محو رہ جاتے تھے اور اس کی دردناک آواز سے قیامت برپا ہوجاتی تھی۔ اسی طرح زمانہ گزرتا گیا اور وہ بڈھا ہوگیا حتیٰ کہ تان میں جان نہ رہی اور اس کے نغمے میں مچھروں کی بھنبھناہٹ پیدا ہوگئی۔ گھڑے کے پیندے کی طرح اس کی پیٹھ خم اور گھوڑوں کی دمچی کی طرح بھویں آنکھوں پر لٹک پڑیں۔ وہ رسیلی آواز بالکل بے سُری، بھدّی اور دل خراش ہوگئی۔

    وہ درد انگیز الاپ جس پر زہرہ کو بھی رشک آتا تھا بڈھے گدھے کی آواز کی مانند ہوگئی کہ اب اس کا کوئی قدردان نہ رہا اور رفتہ رفتہ وہ بالکل مفلس اور روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوگیا۔ اسی پریشانی میں اس نے ایک روز درگاہِ الٰہی میں مناجات کی کہ اے بارِ الہٰ تونے اپنے ذلیل بندے پر بڑے کرم کیے۔ عمرِ دراز بھی عطا کی اور اپنے عادات واطوار درست کرنے کی مہلت بھی دی۔ میں نے ستّر سال تک گناہ کیا پھر بھی تونے کسی دن مجھ سے اپنی بخشش واپس نہ لی۔ لیکن آج میرے پاس کمائی میں سے کچھ نہیں ہے۔

    آج میں تیرا مہمان ہوں چونکہ میں تیرا ہوں اس لئے چنگ بھی اب تیرے ہی حضور میں بجاتا ہوں۔ چنگ لیا اور خدا کی تلاش میں روتا ہوا مدینے کے قبرستان میں پہنچا اور کہا آج میں صلے کا طالب صرف خدا سے ہوں جو اپنے احسان واکرام سے کھوٹے سکے بھی قبول کرلیتا ہے۔ چنگ جی کھول کر بجایا اور روتے روتے سر جھکا کر ایک قبرپر پڑ گیا۔ اسی حالت میں آنکھ لگی گئی۔ دنیا کے رنج اور بدن کی آفتوں سے آزاد، ایک نامحدود جہان اور صحرائے جان میں پھرنے لگا۔ اسی وقت خداوندِ تعالیٰ نے حضرت عمر پر یکایک ایسی نیند غالب کی کہ وہ بھی حیرت میں ہوگئے کہ میرا معمول تو ایسا نہیں ہے، یہ غیبی واقعہ ہے اور ضرور اس میں کوئی بھید ہے۔ تکیے پر سر رکھ کر سوگئے، خواب میں حق کی طرف سے ندا آئی جس کو ان کی جان نے سنا کہ اے عمر ہمارے ایک بندے کی حاجت روا ئی کرکے اس کا صلہ ادا کر۔ ہمارا ایک خاص اور معزز بندہ ہے۔ ذرا تو قبرستان تک تکلیف کر اور بیت المال سے پورے سات سو دینار لے اور اس کے پاس جاکر کہہ کہ اے ہمارے دست گرفتہ اس وقت تو یہ لے لے اور اس کو خرچ کر جب یہ ختم ہوجائے تو پھر یہیں آجا۔

    آواز کی ہیبت سے عمر کی آنکھ کھل گئی۔ فوراً تعمیل پر کمر باندھی اور قبرستان کا رخ کیا۔ بغل میں ہمیانی دبائے ڈھونڈنے نکلے۔ قبرستان میں کئی چکّر لگائے وہاں اس بوڑھے کے سوا اور کوئی دکھائی نہ دیا۔ ہر دفعہ اسی بوڑھے پر خیال جاتا تھا۔ مگر پھر اپنے جی میں کہتے تھے کہ یہ نہ ہوگا یہاں تک کہ تھک گئے اور سوا اسی بوڑھے کے اورکوئی نظر نہ آیا۔ جی میں سو چا کہ خدا نے یہ تو فرمایا ہے کہ ہمارا خاص بندہ ،بہت پاک، لائق اور خوش نصیب ہے بھلا چنگی بوڑھا خاصۂ خدا کیوں کر ہوسکتا ہے۔ دوبارہ پھر قبرستان کے گرد چکر لگایا جیسے شکاری شیر جنگل کے اطراف گھوما کرتا ہے۔

    جب یقین ہوگیا کہ ہو نہ ہو یہ بوڑھا ہی ہے تو دل میں کہا بے شک تاریکی میں بھی بہت سے روشن دل ہوتے ہیں، قریب آئے اور باادب وہاں بیٹھ گئے۔ جونہی ایک چھینک حضرت عمر کو آئی وہ بوڑھا اٹھ بیٹھا۔ حضرت کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔چاہا کہ چلا جائے مگر خوف سے پاؤں کانپنے لگا۔ اپنے جی میں کہنے لگا، اے خدا تجھ سے فریاد کرتاہوں کہ محتسب بوڑھے چنگی کے سر پر آن پہنچا۔ حضرت عمر نے اس سے کہا کہ مت ڈر اور مجھ سے نہ بھاگ کہ میں خدا کی طرف سے تیرے لئے خوشخبریاں لایا ہوں۔ خداوندِ عالم نے تیری وہ تعریف فرمائی کہ حضرت عمر کو تیرا گرویدہ بنادیا۔ خدا نے تجھے سلام کہا ہے اور پوچھا ہے کہ اب تیرا کیا حال ہے۔ لے یہ چند سکے تیرا صلہ ہیں۔

    انہیں خرچ کر اور پھر یہیں آجانا۔ جب یہ سنا تو بوڑھے کی عجب حالت ہوئی، اپنے ہاتھ کاٹنے اور پیچ و تاب کھانے لگا۔ بے اختیار چلا کر کہا کہ اے بے مثل و بے نظیر خدا! یہ بے وسیلہ بوڑھا مارے شرم کے پانی پانی ہوگیا۔ جب روتے روتے بے حال ہوگیا تو چنگ کو زمین پر اس زور سے دے مارا کہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ کہا، اے( چنگ) توہی خدا کے اور میرے درمیان حجاب رہا ہے اور تونےہی سیدھے راستے سےمجھے پھیرا ہے۔ اے خطا بخش و خطاپوش خدا! میرے گناہ معاف اور میری گزشتہ زندگی پر رحم کر۔ اسی طرح روتا چلاتا اپنے گناہ دہرا رہاتھا۔ یہ حال دیکھ کر حضرت عمر نے فرمایا کہ تیری مدہوشی بھی تیری ہوشیاری کی علامت ہے۔ پھر آپ نے اس کو توجہ دی کہ گزشتہ کے رنج اور توبہ کے مقام سے نکل کر معرفت میں محو ہو گیا۔ گویا ایک جان گئی اور دوسری زندگی کا آغاز ہوا۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 30)
    • Author :مولانا رومی
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے