گرم اندر کا اکھاڑا ہے تو میخانے سے
گرم اندر کا اکھاڑا ہے تو میخانے سے
رقص پریوں کا کوئی سیکھ لے پیمانے سے
عکس کی جھیپی ہوئی شکل تو آئینے میں دیکھ
شرم اس کو بھی تو آئی ترے شرمانے سے
دل ہے دیوانۂ گیسو تو پہن لے بیڑی
آن ہے عشق کے ہانکوں کی اسی بانے سے
رات یہ تازہ کھلا گل کہ مرے دل کی کلی
مسکرائی تری چولی کے مسک جانے سے
آبرو ہے دلِ دیوانہ ہی سے گیسو کی
متبرک ہے یہ تسبیح اسی دانے سے
ان کی یہ ہٹ کہ نہیں آج نہ دوں گا بوسہ
دل کی یہ ضد کہ بہلتا نہیں بہلانے سے
دھوکے دیتے نہیں آنکھوں کو بیابانوں میں
چھلیں کرتے ہیں چھلاوے ترے دیوانے سے
اعتبار آپ نے وعدے کا خود اپنے کھویا
نہ رہی اتنی بھی توقیر قسم کھانے سے
کہتی ہے وصل کی شب ان کی حیا سی شوخی
آج حاصل نہیں کچھ چھپنے شرمانے سے
خانقاہوں میں جو یہ پھرئی ہے بہکی بہکی
توبہ بھی پی کے مگر نکلی ہے میخانے سے
دیکھ پایا ہے انہیں حضرت ناصح نے کہیں
اب میں سمجھا جو غرض ہے مری سمجھانے سے
قاضی شہر ہو یا شیخِ حرم کوئی ہو
جو نہ ہو مست نکالو اسے میخانے سے
اشک ہے دانہ مرا اشک ہے پانی میرا
اور واقف ہوں نہ پانی سے نہ میں دانے سے
اک ذرا سی حرکت کی بھی سکت مجھ میں نہیں
غش پہ غش آتے ہیں اب ہوش میں بھی آنے سے
توبہ ٹوٹی ہے ضرور آج کسی اونچے کی
توبہ توبہ کی صدا آتی ہے میخانے سے
لوٹیں عشاق تہ خاک کے سینوں پہ بھی سانپ
یہ اشارہ ہے لٹیں زلف کی لٹکانے سے
سیر کہنا تو غزل کچھ نہیں دشوار امیرؔ
خوف یہ ہے کہ نکل جائے نہ پیمانے سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.