بیت گیا ہنگام قیامت روز قیامت آج بھی ہے
بیت گیا ہنگام قیامت روز قیامت آج بھی ہے
ترک تعلق کام نہ آیا ان سے محبت آج بھی ہے
سخت سہی ہستی کے مراحل عشق میں راحت آج بھی ہے
اے غم جاناں ہو نہ گریزاں تیری ضرورت آج بھی ہے
گلشن حسن یار میں کرتے ہیں جو تلاش کیف و سکوں
لاکھ ہے برہم نظم دو عالم زلف میں نکہت آج بھی ہے
نور سحر ہے جان تصور ظلمت شب سے کون ڈرے
لاکھ بنی ہے زیست جہنم سامنے جنت آج بھی ہے
صبح بہار آئی تھی لے کر رت بھی نئی شاخیں بھی نئی
غنچہ و گل سے پیار ہے لیکن شاخ سے نفرت آج بھی ہے
عرض تمنا کر کے گنوایا ہم نے بھرم خودداری کا
ہو گئی گو تکمیل تمنا دل کو ندامت آج بھی ہے
کر کے ستم کی پردہ پوشی ہم نے انہیں بے عیب کیا
ورنہ شکیلؔ اپنے ہونٹوں پر حرف شکایت آج بھی ہے
- کتاب : کلیاتِ شکیل بدایونی (Pg. 646)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.