دور جب تک رہے ہم بادلِ ناشاد رہے
دور جب تک رہے ہم بادلِ ناشاد رہے
پاس ہم تختۂ مشقِ ستم ایجاد رہے
جو گزر جاتی ہے سر پر سے گزر جانے دے
اپنے لب پر نہ کبھی شکوۂ بیداد رہے
ربط باقی رہے محبوب و محبت میں ہردم
ہم ستم کش رہیں اور وہ ستم ایجاد رہے
میکدے سے ترے خالی نہ پھرا بادہ گسار
تو سلامت رہے اور میکدہ آباد رہے
نہ ٹھکانہ ہے ہمارا نہ کوئی جائے قرار
عمر بھر راہِ طلب میں تری برباد رہے
ہوئی ہر ایک کی دو باتوں میں حل مشکل
تیری نسبت سے جہاں ہم رہے استاد رہے
دل کسی سے نہ لگا دست فشاں سب سے رہے
عمر بھر قیدِ تعلق سے ہم آزاد رہے
جان دی حسرتِؔ شیدا نے ترا لے کر نام
تجھ کو اس چاہنے والے کی بھی کچھ یاد رہے
- کتاب : سرودِ روحانی (Pg. 244)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.