آرزوئے وصلِ جاناں میں سحر ہونے لگی
آرزوئے وصلِ جاناں میں سحر ہونے لگی
زندگی مانندِ شمعِ مختصر ہونے لگی
رازِ الفت کھل نہ جائے، بات رہ جائے مری
بزمِ جاناں میں الٰہی چشم تر ہونے لگی
اب شکیبِ دل کہاں، حسرت ہی حسرت رہ گئی
زندگی اک خواب کی صورت بسر ہونے لگی
یہ طلسمِ حسن ہے یا کہ مآلِ عشق ہے
اپنی ناکامی ہی اپنی راہ بر ہونے لگی
سن رہا ہوں آ رہے ہیں وہ سرِ بالیں آج
میری آہِ نا رسا بھی، با اثر ہونے لگی
ان سے وابستہ امیدیں جو بھی تھیں، وہ مٹ گئیں
اب طبیعت، آپ اپنی چارہ گر ہونے لگی
وہ تبسم تھا کہ برقِ حسن کا اعجاز تھا
کائناتِ جان و دل زیر و زبر ہونے لگی
دل کی دھڑکن بڑھ گئی آنکھوں میں آنسو آ گیے
غالباً میری طرف ان کی نظر ہونے گی
جب چلا مشتاقؔ اپنا کارواں سوئے عدم
یاس ہم آغوش ہو کر ہم سفر ہونے لگی
- کتاب : اسرارالمشتاق
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.