وقتِ رخصت کیا ہوا کچھ یاد ہے
وقتِ رخصت کیا ہوا کچھ یاد ہے
کیسے بچھڑے ہم بھلا کچھ یاد ہے
منہ سے جب نکلا کہ اچھا الوداع
چشمِ تر سے کیا گرا کچھ یاد ہے
عید کے دن کیا ہوئی تھی گفتگو
کیا گلے مل کر کہا کچھ یاد ہے
اجنبیت کا حجاب کیسے اٹھا
منہ سے فرماؤ ذرا کچھ یاد ہے
اس قدر اب بے رخی اچھی نہیں
میں وہی ہوں آشنا کچھ یاد ہے
تم تو کہتے تھے مری تم جان ہو
کیا یہ سچ میں نے کہا کچھ یاد ہے
چپکے چپکے رات کو آنا تیرا
اور دبانا ہاتھ کا کچھ یاد ہے
پھیر لیں ہیں تو نے آنکھیں کس لیے
کیا یہی تھا فیصلہ کچھ یاد ہے
آنکھوں آنکھوں میں اشارے کیا ہوئے
کیا دیا اور کیا لیا کچھ یاد ہے
ہم نا بچھڑیں گے کبھی تا عمر بھر
یہ بھلا کس نے کہا کچھ یاد ہے
جس ادا و ناز سے سودا کیا
اس دلِ مشتاقؔ کا کچھ یاد ہے
- کتاب : اسرارالمشتاق
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.