عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عیش و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو
پوچھو نہ مجھ خراب سے یارو صلاح کار تم
اپنے تو اب نہیں رہے ہوش بجا جو ہو سو ہو
مجھ سے مریض کو طبیب ہاتھ تو اپنا مت لگا
اس کو خدا پہ چھوڑ دے بحر خدا جو ہو سو ہو
عقل کے مدرسہ سے اٹھ عشق کے مے کدہ میں آ
جام فنا و بے خودی اب تو پیا جو ہو سو ہو
لاگ کی آگ لگتے ہی پنبہ نمط یہ جل گیا
رخت وجود جان و تن کچھ نہ بچا جو ہو سو ہو
دیدہ و دل بہم ہیں ایک سوجھ میں اور بوجھ میں
آنکھوں کے سامنے عیاں دل میں بسا جو ہو سو ہو
ہجر کی جو مصیبتیں عرض کیں اس کے روبرو
ناز و ادا سے مسکرا کہنے لگا جو ہو سو ہو
ہستی کے اس سراب میں رات کی رات بس رہے
صبح عدم ہوئی نمود پاؤں اٹھا جو ہو سو ہو
دنیا کے نیک و بد سے کام ہم کو نیازؔ کچھ نہیں
آپ سے جو گزر گیا پھر اسے کیا جو ہو سو ہو
- کتاب : دیوان نیاز بے نیاز (Pg. 152)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.