کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے
ایمان و کفر اور نہ دنیا و دیں رہے
اے عشق شاد باش کہ تنہا ہمیں رہے
عالم جب ایک حال پہ قائم نہیں رہے
کیا خاک اعتبار نگاہ یقیں رہے
میری زباں پہ شکوہ درد آفریں رہے
شاید مرے حواس ٹھکانے نہیں رہے
جب تک الٰہی جسم میں جان حزیں رہے
نظریں مری جواں رہیں دل حسیں رہے
یا رب کسی کے راز محبت کی خیر ہو
دست جنوں رہے نہ رہے آستیں رہے
تا چند جوش عشق میں دل کی حفاظتیں
میری بلا سے اب وہ جنونی کہیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ہم تو اب ترے قابل نہیں رہے
مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں
قسمت میں کوئے یار کی وہ گر زمیں رہے
اے عشق نالہ کش تیری غیرت کو کیا ہوا
ہے ہے عرق وہ تن نازنیں رہے
درد و غم فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم اتنے حسیں رہے
اللہ ری چشم یار کی معجز بیانیاں
ہر ایک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
ظالم اٹھا تو پردۂ وہم و گمان و فکر
کیا سامنے وہ مرحلہ ہائے یقیں رہے
ذات و صفات جس کا عالم نظر میں ہے
محدود سجدہ کیا مرا ذوق جبیں رہے
کس درد سے کسی نے کہا آج بزم میں
اچھا یہ ہے وہ ننگ محبت یہیں رہے
سر دادگان عشق و محبت کی کیا کمی
قاتل کی تیغ تیز خدا کی زمیں رہے
اس عشق کی تلافئ مافات دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے
- کتاب : کلیات جگر مرادآبادی (Pg. 84)
- Author : جگرؔ مرادآبادی
- مطبع : لبرٹی پبلیسر اندڈ پرنٹرز، حیدر آباد (1958)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.