کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
دلچسپ معلومات
محمد علی بخش واعظ قوال نے حضرت رازؔ کی غزل میں دوسرے شعرا کی تظمین و اشعار وغیرہ کے ساتھ اسے پڑھا ہے۔
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
خدا بھی ملا اور خدا کا رسول
ازاں زماں کہ مقول خویشتن گشتم
زجبہ سائی رہیدم زہر درد ہر کو
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
اپنی نہ کی تلاش بڑی چوک یہ ہوئی
برسوں رہا خراب تلاشِ خدا میں میں
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
کروں کس کی محبت میں عبث فریاد دشیوں میں
پھروں آوارہ ہو کر کس کی خطر کوئی درزن میں
ادب سے سامنے کس کے جھکاؤں اپنی گردن میں
کروں میں کس کی پوجا اور چڑھاؤں کس کو چندن میں
صنم میں دیر میں بت خانہ میں بت میں برہمن میں
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
سوا اپنے نہیں ہم چشم کوئی اپنا بیگانہ
خدا کی شان اب تو جام جم ہے چشم مستانہ
جدھر دیکھو نظر آتا ہے ہر سو روئے جانانہ
در و دیوار رہے نظروں میں میری آئینہ خانہ
کیا کرتا ہوں گبر بیٹھے ہوئے آپ اپنے درشن میں
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
نہ فکرِ دین و دنیا ہے نہ کچھ اعمال سے مطلب
گزشتہ کا کوئی کھٹکا نہ استقبال سے مطلب
نہ حجت سے ہے دلچسپی نہ استدلال سے مطلب
نہ قیل و قال سے مطلب نہ شغل و اشغال سے مطلب
مراقب اپنا رہتا ہوں جھکا کر اپنی گردن میں
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
محبت ہے تو اپنے سے عداوت ہے تو اپنے سے
ہوں اپنا دوست آپ ہی اور اپنا آپ دشمن میں
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
حمد میگویم برائے خویشتن
راست ناید جذ ثنائے خویشتن
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
یک سرودِ خوش سرایم پیش خویش
زخمۂ زخمے زنم بر ریش خویش
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
تا بر آیم نغمہ ریزاں پیش خود
دست انشاں پائے کوہاں پیش خود
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
میخانہ لٹ رہا ہے ہر مست کہہ رہا ہے
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
مرے کانوں میں آہستہ کہا پیرِ طریقت نے
کیا میں نے جس دن سے خود کو قبول
نہیں ہے مجھ کو ریاضت کی زہد کی مہارت
کہ اپنے کام میں ہر دم لگا ہوا ہوں میں
کیا میں نے جس دن سے خو کو قبول
خدا بھی ملا اور خدا کا رسول
مری ذات تخم اور زمیں ہے خیال
دو عالم ہے گلبن یہ انساں ہے پھول
غریق بحر عرفاں ہو تو تب یہ ماجرا سمجھو
مری ذات تخم اور زمیں ہے خیال
معما وہ ہوں کہ مری بوجہ میں
ہیں حیراں دو عالم کے جملہ عقول
میری کیا بود ہے اک پتلا ہوا کا میں ہوں
ساتھ اک ہو کے بگڑ جائے وہ نقشہ میں ہوں
کیا حقیقت ہے مری بود کی قطرہ میں ہوں
چشم حق بیں سے اگر دیکھو تو دریا میں ہوں
ابھی کھل جاؤں تو سب رازِ حقیقت کھل جائے
نامۂ حسب حقیقی کا لفافہ میں ہوں
کیا ملک میری حقیقت کو سمجھتے علوی
ان کا استاد نہ سمجھا وہ معما میں ہوں
معما وہ ہوں کہ مری بوجہ میں
وہ ظالم ہوں جس کا لقب ہے ظلوم
وہ جاہل ہوں جس کا علم ہے جہول
وصف انساں از چہ و آمد جہول
گرچہ زو پیدا ست ایں جملہ عقول
از خود و از غیر خود او جاہل است
زانکہ در عرفان خویش او کامل است
ظلم انساں پس ہمی باشد تخلیق
جملہ عالم رافر و بردہ بخلق
او فط خود رانہ خود نابود کرد
جملہ راہا خویشتن مفقود کرد
زیں صفت انساں ظلوم است و جہول
گرچہ زو پیدا علوم است و عقول
وہ ظالم ہوں جس کا لقب ہے ظلوم
وہ جاہل ہوں جس کا علم ہے جہول
یہ مرشد سے پوچھا کہ ہے یاد کیا
کہا خود کو بھول اور خدا کو بھی بھول
گم شدن در گم شدن دیں منست
یہ مرشد سے پوچھا کہ ہے یاد کیا
کہا خود کو بھول اور خدا کو بھی بھول
تو در و گم شود صال ایں است و بس
گم شدن گم کن کمال ایں است و بس
یہ مرشد سے پوچھا کہ ہے یاد کیا
کہا خود کو بھول اور خدا کو بھی بھول
یاد تیری در حقیقت بھول ہے اے مرورہ
بھولنا بھی بھول جائے گا تو ہوگا کامیاب
یہ مرشد سے پوچھا کہ ہے یاد کیا
کہا خود کو بھول اور خدا کو بھی بھول
وہ ہے مرد جس نے کہ مرنے کے قبل
جہاں کو بنایا ہے گنج خمول
اب کل پہ نہ رکھ کر لے وطن ہی میں سفر آج
اے طالبِ حق مرنے سے پہلے ہی تو مر آج
وہ ہے مرد جس نے کہ مرنے کے قبل
جہاں کو بنایا ہے کنج خمول
وہ جو ہے سو ہے غیر فہمی سے رازؔ
رخِِ انور پہ کب تک اڑائے گا دھول
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.