میں شرابی میں شرابی میں شرابی شرابی
دلچسپ معلومات
عزیز میاں قوال نے اسے پڑھا ہے۔
دل کے بازار میں دولت نہیں دیکھی جاتی
پیار ہوجائے تو صورت نہیں دیکھی جاتی
اک تبسم کو دو عالم کو نچھاور کر دوں
مال اچھا ہو تو قیمت نہیں دیکھی جاتی
دل دیا میں نے پیار کی حد تھی
جان دی اعتبار کی حد تھی
مرگئے ہم کھلی رہیں آنکھیں
یہ تیرے انتظار کی حد تھی
تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے
عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں
دل اک مندر ہے آپ مورت ہیں
آپ بھی کتنے خوبصورت ہیں
اگر میکدے سے تو اک بار گذرے تو
زاہد وہاں اپنا کعبہ بنا لے
پجاری اگر تیری صورت کو دیکھے
تو چن چن کے اک اک صنم توڑ ڈالے
تیری صورت تیری صورت
تجھی کو تکنے لگے تو جو آیا مسجد میں
نماز سب نے قضا کی تیری ادا کے لئے
تجھی کو دیکھنا تیری ہی سننا تجھ میں گم ہونا
تیرا دیکھان عبات تری یاد بندگی ہے
تیری صورت تیری صورت
ریاضت نام ہے تیری گلی میں آنے جانے کا
تصور میں ترا رہنا عبادت اس کو کہتے ہیں
تیری صورت تیری صورت
عارض چہ عارض گیسو چہ گیسو
صبحے چہ صبحے شامے چہ شامے
تیری صورت تیری صورت
لوحِ جنبش صبحِ تجلی
روئے مبینش ماہِ تمامے
تیری صورت تیری صورت
از چشمِ لرزاں دو عالم
وزلفِ برہم بر ہم نظامے
تیری صورت تیری صورت
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا
ہم بھی وہاں موجود تھے ہم سے بھی وہ پوچھا کئے
ہم چپ رہے، ہنس دیئے منظور تھا پردہ ترا
تیری صورت تیری صورت
میں تو یونہی خاک پہ
انگلیاں پھیر رہا تھا
جب غور سے دیکھا
تیری صورت بن گئی
تیری صورت تیری صورت
وہ مست آنکھیں دراز کاکل کمان ہیں ابرو تو مژگاں
بزار غم ہیں ہر اک ادا میں ہزار فتنے نظر میں پنہاں
تیری صورت تیری صورت
یک نگاہِ ناز جانا قیمتِ ایمانِ ما
تیری صورت تیری صورت
تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں
تیرے خاموش رہنے سے پردہ نشیں تجھ پہ الزام آئے تو میں کیا کروں
حسن اور عشق دونوں میں تفریق ہے کیا کروں میرا دونوں پہ ایمان ہے
گر خدا روٹھ جائے تو سجدے کروں گر صنم روٹھ جائے تو میں کیا کروں
میں نے خاکِ نشیمن کو بوسے دیئے اور کہہ کرکے یہ دل کو سمجھا دیا
آشیانہ بنانا مرا کام تھا کوئی بجلی گرائے تو میں کیا کروں
شوق پینے کا مجھ کو زیادہ نہ تھا ترکِ توبہ کا کوئی ارادہ نہ تھا
مجھ پہ تہمت نہ رکھ میں شرابی نہیں وہ نظر سے پلائے تو میں کیا کروں
فصلِ گل ہے شراب پی لیجئے
شرم کیسی جناب پی لیجئے
آگے چل کر حساب ہوتا ہے
اس لئے بے حساب پی لیجئے
جو پئے چھپ کے وہ منافق ہے
بے تکلف شراب پی لیجئے
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
جنت جو ملے لا کر میخانے میں رکھ دینا
کوثر میرے چھوٹے سے میخانے میں رکھ دینا
میت نہ میری جاکر ویرانے میں رکھ دینا
پیمانے دفنا کر میخانے میں رکھ دینا
ساقی درِ میخانہ ابھی بند نہ کرنا
شاید مجھے جنت کی ہوا راس نہ آئے
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
یارو! مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں
شیشے میں مے ہے، مئے میں نشہ، میں نشہ میں ہوں
یہ اپنی مستی ہے جس نے مچائی ہے ہلچل
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردشِ ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے تیرا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ساقی تجھے کچھ تھوڑی سی تکلیف تو ہوگی
ساغر کو ذرا تھام میں کچھ سوچ رہا ہوں
کل رات میکدے میں عجب حادثہ ہوا
زاہد شراب پی گیا میرے حساب میں
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
تاج و تخت و حکومت نہیں چاہتا
دین و دنیا کی ثرورت نہیں چاہتا
میرے ساقی میں دولت نہیں مانگتا
بلکہ ساقی تو مرا اک کام کر میخانہ میرے نام کر
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
شکستہ حال ہیں دنیا کے بھی ستائے ہیں
ترے سوال کا یا رب جواب دیتے ہیں
بروزِ حشر ہے اتنی جلد بازی کیا
ذرا شراب تو پی لیں حساب دیتے ہیں
میں شرابی میں شرابی میں شرابی شرابی
اگر کھائے واعظ نے انگور تو میں حشر میں کہہ دوں گا
ارے اللہ، یہ شراب کی گولیاں کھاتے تھے ہم ساغر سے پیتے تھے
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
دیکھا جو حسنِ یار طبیعت مچل گئی
آنکھوں کا تھا قصور چھری دل پہ چلی گئی
ہم تم ملے نہ تھے تو جدائی کا تھا ملال
اب یہ ملال ہے کہ تمنا نکل گئی
پینے سے کرچکا تھا میں توبہ بجا مگر
بادل کا رنگ دیکھ کے نیت بدل گئی
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
شراب کو کوئی اپنا صریح رنگ نہیں
شراب تجزیہ و احتساب کرتی ہے
جو اہلِ دل ہیں بڑھاتی ہے آبرو ان کی
جو بے شعور ہیں ان کو خراب کرتی ہے
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
توبہ سے مجھے ضد ہے میں توبہ نہ کروں گا
کیونکہ میں نے توبہ ہزار بار کری
کرکے توڑ دی، اب تو مری توبہ جو کبھی توبہ کروں
توبہ توبہ شراب سے توبہ، میں شرابی شرابی
افلاک سے کھینچی جاتی ہے سینوں میں چھپا لی جاتی ہے
توحید کی مئے ساغر سے نہیں آنکھوں سے پلائی جاتی ہے
رنگ میں آج مجھے ہوش ربا دے ساقی
خون کا بھر کے کٹورا مجھے لادے ساقی
میں پیوں تم بھی پیو دونوں شرابی ہوجائیں
میں پلاؤں تجھے تو مجھ کو پلا دے ساقی
میں پیوں تم بھی پیو دونوں شرابی ہو جائیں
میں پلاؤں تجھے تو مجھ کو پلا دے ساقی
ہو مجھے پنجتن پاک کی الفت کا خمار
پانچ پیالے مجھے گن گن کے پلا دے ساقی
گر کوئی فعل کروں پی کے شریعت کے خلاف
پھر تو بیشک مجھے سولی پہ چڑھا دے ساقی
مدعا دل میں جو ہے وہی زباں سے نکلے
جو لڑکھڑا کے گروں منہ سے یا علی نکلے
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
اے اللہ تیری رحمت کی قسم تیری محبت کی قسم
تیری عظمت کی قسم تیری شفاعت کی قسم
اور بڑی قسم
حبیب خدا کی قسم
شبِ ہجراں کی قسم کاکلِ پیچاں کی قسم
مست آنکھوں کی قسم جلوۂ جاوداں کی قسم
حسنِ یوسف کی قسم عشقِ زلیخا کی قسم
یدِ بیضا کی قسم اور دمِ عیسیٰ کی قسم
ہیتِ موسیٰ کی قسم بازوئے حیدر کی قسم
حلقِ اصغر کی قسم چادرِ زینب کی قسم
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
بلکہ من تنہا در ایں میخانہ نہ ستم
شبلی و عطار شد مست
بروئے پاک شمس الدین تبریزی
کہ کُل سر
سربازار مست
منصور نے جو سولی پہ خود کو چڑھا کے پی
یز نے بھی کھال پر اپنی کھنچا کے پی
سرمد جو تھے تو مستی میں سر کو کٹا کے پی
یوسف نے اپنے حسن کا جلوہ دکھا کے پی
ایوب نے بھی صبر کی حد کو مٹا کے پی
موسیٰ نے کوہِ طور کو سرمہ بنا کے پی
عیسیٰ نے قم باذنی سے مردے جلا کے پی
اکبر نے اپنی ساری جوانی لٹا کے پی
اصغر نے سوکھے حلق پہ بس تیر کھا کے پی
قاسم نے اپنے سہرے کی لڑیاں کٹا کے پی
عباس نے تو دریا پہ شانے کٹا کے پی
شبیر نے نماز میں سر کو جھکا کے پی
میں شرابی شرابی میں شرابی شرابی
- کتاب : Pakistani Qawwalian (Pg. 4)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.