جوگن
ہائے اس الفت ظالم کا برا ہے یہ چلن
چھوٹتی ہی نہیں لگ جاتی ہے جس وقت لگن
چار ناچھار اٹھانے ہی پڑے رنج و محن
در فراق رخ پرنور تو اے غنچہ دہن
دیدہ باید کہ چگونہ شود احوال من
ہجر نے اب تو نہایت کیا بے دم مجھ کو
پھرتی ہوں شکل بگولے کے میں ویران ہر سو
اے مرے ماہ جبیں اے مرے ہم دم گل رو
کون سے شہر میں ہے کون سی جا پر ہے تو
اے مرے ہمدم جان اے مرے جان و تن من
دل صد چاک مرا چاک گریباں میرا
مثل دیرا کے رواں دیدۂ گریاں میرا
برق کی طرح تپاں یہ دل سوزاں میرا
دیکھ ٹک آن کے یہ حال پریشاں میرا
کہ تیرے ہجر میں کیا کیا نہ سہا رنج و محن
میری جیسی ہے کرے حق نہ کسی کی اوقات
جو سنی بھی نہ تھی گاہے وہ وہ دیکھی آفات
ہائے افسوس صد افسوس ہے حسرت ہیہات
زار زار اب تو پڑا ہجر میں رونا دن رات
زندگی ہو گئی دوبھر مجھے اور جان کٹھن
خانماں و طرب و عشق و زر و مال و خوشی
اک تجھے یاد رکھا سب کے تئیں بھول گئی
ہائے جس وقت لگی آنکھ وہ کیسی تھی گھڑی
شہر بھی چھوڑ دیا دیس سے پردیس ہوئی
ہجر نے کر دیا آخر ترے مجھ کو جوگن
سرخ آنکھیں ہوئی الفت کے نشے سے رنگیں
پہن کر حلقہ بگوشی کے بھی مندرے دو تین
تونبہ کر دست دعا کا پڑی پھرتی ہوں حزین
پیرہن گیروا رکھے ہوئے کاندھے پر بین
من کے منکوں کی بنا ہات میں پہنتی سمرن
کھوئے پھرتی ہوں سب آرام کو ہرجائی میں
ڈھونڈھتی ہوں تجھے گلفام کو ہرجائی میں
گاتی پھرتی ہوں اسی کام کو ہرجائی میں
جپتی پھرتی ہوں ترے نام کو ہرجائی میں
آٹھ آٹھ آنسوؤں سے روتی ہوں اور تر نین
ناتواں ہو گئی اور جسم میں باقی نہیں دم
رکھو ٹک آکے کبھی اس دل مضطر پہ قدم
ہو گئیں خشک رگیں سیلیوں سے میں نہیں کم
گیروا ساری ہے اورجائے بھبوت اے ہم دم
خاک اڑ اڑ کے پڑی تن کے اپر سو سو من
یہی دل ہے کہ ہو تھا نہ کبھی بھی غمناک
وہی دل ہے کہ ہوا تیغ جفا سے صد چاک
آگ لگ جائیو اس پیت میں جلیو یہ تپاک
سیس کے بال تھے سنبل سے جمی جس میں کاک
خاک مل گیا تھا یہ جو چندرما سا بند
پھوڑ کر پتھروں سے کر دیے سر کے ٹکڑے
ہائے تو ہے کہاں اے میرے قمر کے ٹکڑے
آ ادھر دیکھ میری ٹوٹی کمر کے ٹکڑے
جیب کے بلدلے میں کرتی ہوں جگر لے ٹکڑے
نہ تو بستی ہی خوش آتی ہے نہ کہسار نہ بن
میں نے کیا کیا نہ سہا آہ تری الفت میں
ایک دیوانی پڑی پھرتی ہوں میں دقت میں
ناگہاں آگئی اک مفت کی میں آفت میں
سیس کے بال کھسوٹوں ہوں کھڑی فرقت میں
خاک اڑائے پڑی پھرتی ہوں بصد رنج و مھن
ساری پت میری گئی اے مرے ساجن تجھ پر
مال و زر وار دیا اور تن و من تجھ پر
ایک حیراں پڑی پھرتی ہوں بروگن تجھ پر
چھوڑ کر ماتا پتا کو ہوئی جوگن تجھ پر
لیک تو ہی نہ ملا اے مرے جوگی ساجن
اپنے بیگانوں نے کر ڈالا ہے مجھ کو پامال
اور ادھر تیری جدائی میں ہوئی جان وبال
خاک کا بھی نہیں وہ حال جو ہے میرا حال
اقربا کی بھی نظر سے گرے اشکوں کی مثال
باپ اور ماں کا ترے واسطے چھوڑا دامن
کچھ دیں کی خبر اور نہ دنیا کا کام
سارے کاموں کے تئیں بھول گئی اے گلفام
دل گیا جان گئی اور گیا عیش و آرام
گھر گیا دیس گیا ہو گئی جگ میں بدنام
اک سہیلی ہے مری آہ بس اور سب دشمن
یاد میں بیٹھ گئی جس جگہ میں آسن مار
دل کی کھونٹی کو مڑوڑا اتری جانب کو سدھار
نالۂ موزوں کے بس کر کے سروں کو تیار
جگر و تن کی بنا تو بنی بس اور آہ کے تار
بین کو غم میں بجاتی پھری بن بن بن بن
کون سی بات تھی جو واسطے تیرے نہ کری
چلے بھی باندھے بہت پوچھا بھی درگاہ میں کی
دیس پردیس پھری چرنوں میں لوگوں کے پڑی
پوچھا ایک ایک سے تجھ کو میں بصد حیرانی
لیک تیرے ہی کسی طرح نہ پائے درشن
جا کے متھرا میں رہی اور بڑا پوجا تجھ کو
کاشی میں بیٹھ رہی لیکن نہ پایا تجھ کو
گنگا اور جمنا کے تیرتھ پہ بھی مانگا تجھ کو
کون سی جا تھی کہ جس جا پہ نہ ڈھونڈا تجھ کو
پورب اور پچھم و اتر سے لگاتا بہ دکن
اب تو لاچار ہوئی اور بڑی بے چین ہوئی
ہجر کے درد و الم میں چلا جاتا ہے جی
تاکہ اب ڈھونڈھنے سے کوئی بھی جاگہ نہ رہی
اب فقط ملک عدم مجھ کو رہا ہے باقی
سو بھی کچھ دور نہیں اور نہیں راہ کٹھن
ہو گئی جان کی لیو اثری الفت بیری
مرگ کے کرتی ہے سامان محبت یہ سبھی
کون دن میں تو یہ سن لیجو نکل جائے گی جی
رحم کر مجھ پہ کہاں تک کہوں فرقت تیری
دیکھ اس جان پہ کیا کیا سہا تیرے کارن
روح ہونٹوں تلک آ جاتی ہے گھبراتی ہے
لیک امید ملاقات میں پھر آتی ہے
غم پہ پھٹتی مرے ہر ایک کی اب چھاتی ہے
آہ کے ساتھ میری جان چلی جاتی ہے
اب اٹھا سکتا نہیں بار مصیبت یہ بدن
یاد کر کر کے تجھے دیدہ تو رو دیتا ہے
جو مجھے دیکھتا ہے روتا وہ رو دیتا ہے
دیکھ کر ہر ایک مرے سمت کو رو دیتا ہے
جو مرے حال کو دیکھے ہے سو رو دیتا ہے
ہوش لوگوں کے اڑے جاتے ہیں سن میرا سخن
سر کہسار سے ٹکراتی ہے باد صرصر
جانور دیکھیں ہیں حیرانی سے با دیدۂ تر
در و دیوار مرے حال بتر پر ششدر
سر کو دھنتا ہے مرے حال پہ ہر ایک شجر
میری بے چینی سے بچپن ہیں شیر اور ہرن
جب کہ تجھ بن یہ ہوا میرے اپر رنج و تعب
ہر کوئی کہنے لگا ہائے غضب ہائے غضب
اڑتے اڑتے مری خبروں کا فسانہ ہوا جب
اک دل آباد ہے بستی وہیں جاتے ہیں سب
اس میں ایک راجہ مہاراجہ کا ہے سنگاسن
نامی و نامور اور خلق میں عزق والا
جس کے تابع ہیں ہر اک ساہ سے لے تا بہ گدا
ہے حقیقت میں جہاں مرضی پہ اس کی سارا
عقل کل نام کہا کرتے ہیں اس راجہ کا
دیکھ کر مجھ کو وہ کرنے لگا اس طرح سخن
واہ وا بھاگ مرے میں نے جو دیکھتا تم کو
تم سے الفت ہے ہمیشہ سے ہمارے دل کو
میں تو یہ چاہتا ہی تھا کہ کہیں مجھ سے ملو
آؤ جی بیٹھو مرے گھر میں قدم رنجہ کرو
کرو درشن مرے کاشانے کو ٹک رکھ کے چرن
ہم تمہیں جانتے ہیں اور بزرگوں کو سب
سب بزرگ آپ کے رکھتے ہیں ہماری ہی طلب
ہم کو بھی لوگوں سے ہے ربط محبت کے سبب
ہم کو معلوم ہوا آپ کا سب حسب نسب
عشق نے تم کوبنایا ہے بہ شکل جوگن
ہے عزیز آپ کی خاطر بڑی ہم کو دل میں
اس سے سمجھاتے ہیں اب مت رکھو غم دل میں
کیوں اٹھا رکھا ہے اس جورو ستم کو دل میں
جانے دو راہ نہ دو رنج و الم کو دل میں
باغ کی سیر کرو اور ہو محو گلشن
محل عشق بنا کر رہو آنکھوں کے حجور
باغ دنیا کی کرو سیر جو ہو دل کو سرور
کیسے کیسے ہیں گل انداموں کا دیکھو تو ظہور
یاد کو اس رخ تاباں کی کرو دل سے درو
کون سی بات کی کمتی ہے تمہیں صاحب من
تم بھی سردار ہو ذی ہوش ہو ٹک غور کرو
ایک ہی شخص پہ مر جاتے نہیں جان کو کھو
سیکڑوں ماہ جبیناں ہیں ہزاروں خوش خو
تن سے بس گیروی کفنی کے تئیں دور کرو
پہنو پوشاک شہانہ رکھو خوش دل اور من
شانہ لو ہاتھ میں اور اپنے یہ سلجھاؤ بال
سرمہ دو آنکھوں میں اور دیکھو یہ قدرت کا خیال
دل کو بھلا دو یہ سبھی رنج و ملال
تم پہ اس طرح کا ہے نام خدا حسن و جمال
کہ پیین خلق کے دلبر سبھی دھو دھو کے چرن
دل کو مبرور رکھو اور رہو شاد اور خوش
شیریں باتیں کرو اور شکل بناؤ دل کش
کہ ہر ایک شخص کو آجائے تمہیں دیکھ کے غش
نہ کہ تم اوروں پہ اس طرح پھرو وحشی وش
جانے دور دور کرو دل سے یہ الفت کی لگن
آدمی رنج سہا کرتا ہے ان باتوں میں
جان کو کھوتا پھرا کرتا ہے ان باتوں میں
سب کی نظروں سے گرا کرتا ہے ان باتوں میں
نام بدنام ہوا کرتا ہے ان باتوں میں
خوب ہم دیکھ چکے ہیں بڑا ہے یہ فن
خوب سن سن کے میں حیران رہی منہ کو تک
اور مایوسی و مظلومی سے دیکھا بہ فلک
گفتگو حد سے زیادہ ہوئی بس اور یک بیک
تب تو وہ حال ہوا جیسے جراحت پہ نمک
وعظ کے تیروں سے پہلو ہوا چلتی ہوا چھن چھن
سب کو روشن ہے بری ہوتی ہے یہ پیت لگی
میں بھی کہنے ہی سے آکر کے تئیں رہ نہ سکی
دل میں غصہ تو بہت آیا ولے روگ گئی
زار زار آنکھوں سے رونے لگی اور کہنے لگی
ہے بعید ایسے خردمندوں سے یعنی یہ سخن
آپ تو جانتے ہیں پیٹ بلا ہوتی ہے
خوب معلوم ہے تم کو کہ کیا ہوتی ہے
رہے خاموش طبیعت یہ خفا ہوتی ہے
وہ جی یوں بھی لگی دل سے جدا ہوتی ہے
عشق میں کس کے تئیں بھاتی ہے سیر گلشن
عیش کب بھاتا ہے جب تک کہ نہ ہو یار حضور
گل رکسار بہ جز باغ سے کب ہووے سرور
اس سوا کون ہے بہتر کہ وہ میں دیکھوں ظہور
اپنے کیا بس میں ہے جو دل سے کروں رنج کو دور
اپنے قابو میں ہے جو دور کروں رنج و محن
بال خاص اس لیے ہیں مجھ کو یہ منظور نظر
کہ بہاریں کبھی راہ اس کی جو وہ آتے ادھر
یہ تمنا ہے یہ آنکھیں گریں ان قدموں پر
بات کے کرنے سے ہے آہ کا کرنا بہتر
جلیو یہ تن جو خوش آئے اسے خوش پیراہن
میرا وہ رشک قمر کون ملا دے مجھ سے
میرا وہ تیر نظر کون ملا دے مجھ سے
میرا متوالا مگر کون ملا دے مجھ سے
یا خدا میرا جگر کون ملا دے مجھ سے
کون جا کر کہے میں پھرتی ہوں بے شہر و وطن
خوش ہوں اس غم سے کہ یہ یار کے باعث سے ہوا
ننگ و ناموس بھی سب اس پہ سے ہے وارد یا
سر ہتھیلی پہ دھرا عشق میں جب پاؤں رکھا
جن کا بھی نہیں جب پاس تو پھر پاس ہے کہا
جو کہ سمجھائے مجھے اس کا ہے دیوانہ پن
نام پر تیرے میں اس جاں کے تئیں کھو جاتی ہوں
تری صورت پہ میں قربان کھڑی ہوتی ہوں
خون دل روتی ہوں عارض کے تئیں دھوتی ہوں
تھام تھام اپنے کلیجے کے تئیں روتی ہوں
دیکھ رہتی ہوں ہر اک شخص کو حیراں بن بن
جو نہ سہتا تھا سہا رنج بہت کھایا ہائے
لیک ارمان رہا دل کو بہت سارا ہائے
یعنی تو نے ہی نہ دیکھا یہ میرا چلنا ہائے
اب تو بے تابی سے گھبرا گیا دل میرا ہائے
ڈوب کر مر ہی رہون بر لب گنگ اور جمن
کس کو دکھلاؤں جو گزرے ہے تری الفت میں
کچھ مرے بس کی نہیں پھنس گئی اک دقت میں
نام بدنام ہوا فرق پڑا عزت میں
ایک دیوانی سی پھرتی ہوں تری فرقت میں
عرش سے فرش تلک حال ہے میرا روشن
کس سے میں جا کے کہوں کون سی جا ہے تیری
کبھی بے تابی سے بیٹھوں کبی ہوئی ہوں کھڑی
کبھی ہو محو تصور یہی کہتی ہوں اجی
سیس کے بالوں سے میں راہ بہاروں تیری
جو قدم رنجہ کرو اور مجھے دو درشن
کبھی رو دیتی ہوں آنکھوں سے بہ شکل دریا
کبھی گاتی ہوں ترے نام کو لے لے کے پیا
کبھی منھ پیٹ لیا جیب کبھی چاک کیا
آرزو ہے کہ میں سو جان سے ہوں تجھ پہ فدا
دیکھے ٹک آن کے تو بھی تو مرا جوگن پن
تو کہیں اور میں کہین اس سے تو مر ہی جاؤن
اے مرے ماہ جبیں اس سے تو مر ہی جاؤں
تجھ کو بھی ہووے یقین اس سے تو مر ہی جاؤں
تاب جینے کی نہیں اس سے تو مر ہی جاؤں
ہے جدائی کی نپٹ مجھ پہ مصیبت یہ کٹھن
یا الٰہی کوئی مجھ سا بھی نہ ہووے دل گیر
خجل و خوار پریشان و ذلیل اور حقیر
طور بے طور نظر آتے ہیں ہوں بس کہ نظیرؔ
حسرتا آہ چہ بے غم بہ غم یار شیریر
من حزیں در غم او خلق حزیں در غم من
- کتاب : کلیات نظیر اکبرآبادی، مرتبہ عبدالباری آسی (Pg. 728)
- Author : نظیرؔ اکبرآبادی
- مطبع : منشی نولکشور، لکھنؤ، (1951)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.