مری رتبہ شناسوں سے مری توقیر کو پہنچو
دلچسپ معلومات
منقبت در شان غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی (اجمیر-راجستھان)
مری رتبہ شناسوں سے مری توقیر کو پہنچو
کسی شمشیر زن سے جوہر شمشیر کو پہنچو
کوئی مالی سے جا کر صنعت تصویر کو پہنچو
کسی عاشق سے حسن یار کی توقیر کو پہنچو
حقیقت جام کی جمشید بھی کچھ جان سکتا ہے
سکندر ہی صفت آئینہ کی پہچان سکتا ہے
لکھوں میں آپ ہی اپنی بڑائی غیر ممکن ہے
کروں میں اپنے منہ سے مدح اپنی غیر ممکن ہے
زباں ہووے مری صرفِ تعلی غیر ممکن ہے
یہ دعوے غیر ممکن ہے یہ شیخی غیر ممکن ہے
جو ہیں ذی فہم وہ اس فن میں اکمل مجھ کو کہتے ہیں
سبھی دنیا کے خاص و عام افضل مجھ کو کہتے ہیں
شہ ملک معانی ہونے کا دعوے نہیں مجھ کو
میں یکتائے جہاں ہوں یہ دماغ اصلا نہیں مجھ کو
نہیں مجھ سا کوئی شاعر غرور اس کا نہیں مجھ کو
مگر جس بات پر ہے ناز نازیبا نہیں مجھ کو
مذاق اس پر میں نازاں ہوں کہ میں مداح کس کا ہوں
مرا ممدوح کیسا ہے میں کیا کچھ ایسا ویسا ہوں
خوشا قسمت مرا ممدوح دنیا سے نرالا ہے
خدائے بہر سے افضل ہے زمانہ بہر سے اعلیٰ ہے
شہنشاہ جہان سلطانِ دوران شاہ والا ہے
بشر کیا چیز ہے قدوسیوں سے قدر بالا ہے
جناب خواجۂ اجمیر جس کا نام نامی ہے
در والا جشم پر جس کی گردوں تک سلامی ہے
کوئی جانے تو کیا جانے مری ممدوح کا رتبہ
کوئی سمجھے تو کیا سمجھے علو حضرتِ خواجہ
نبی نے خواجۂ ہندالولی خود جس کو فرمایا
خدائی جس کی شیدائی زمانہ جس کا متوالا
خطاب آتا ہے اس کو عرش اعظم سے بہشتی کا
ازل سے ہے جو دیوانہ معین الدین چشتی کا
خوشا قسمت مری دل میں مری خواجہ کی الفت ہے
خوشا قسمت مجھے بھی حق کی پیاری سے محبت ہے
خوشا قسمت انیس غم مرا آزار فرقت ہے
خوشا قسمت دیار عشق میں میری حکومت ہے
عجب اللہ اکبر انِ دنوں کچھ میرا پایہ ہے
فدائے خواجۂ ہندالولی کا نام پایا ہے
خضر بن کر چل آگے آگے اے شوق دلِ نالاں
تمنا ہے کہ ان آنکھوں سے دیکھوں منزل جاناں
جنون عشق میں پاؤں نہ کل میں بے سر و ساماں
یوں ہی آٹھوں پہر چھانا کروں اجمیر کی گلیاں
مری دیوانگی وہ شہرۂ آفاق ہو جائے
کہ میں شائق ہوں جس کا خود میرا مشتاق ہو جائے
فروغ مہر و مہ حاصل ہو تیری رہنمائی کو
بلائیں کرو فر کے ساتھ وہ اپنی فدائی کو
قدم رکھتی ہے آ جائے تصور پیشوائی کو
ملے سنگ درِ اجمیر اپنی جبہ سائی کو
نماز پنج گانہ کا اسی در پر مزا ٹھہرے
وہ قبلہ اور مرا دل طائر قبلہ نما ٹھہری
کہوں رو رو کے پیاری چاند سی صورت کہا مجھ کو
میں صدقے تیری جاؤں اپنا دیوانہ بنا مجھ کو
نہ ترسا اب خدا کے واسطے اے مہ لقا مجھ کو
اٹھا کر برقۂ عارض دکھا نور خدا مجھ کو
غش آئی یوں جھلکتا چہرۂ پر نور کو دیکھوں
کلیم اللہ کی مانند برق طور کو دیکھوں
تصور میں میں ان کی چاند سی تصویر جب پاؤں
یہ حالت ہو کبھی صدقہ کبھی قربان ہو جاؤں
کبھی داغ جگر داغ دل اپنی شہ کو دکھلاؤں
کبھی پلکوں سے تلوے قبلہ عالم کے سیلاؤں
کبھی زلفوں کو بل دیکھوں کبھی رخ کی ضیا دیکھوں
سراپا آنکھ سے وہ پیکر ناز و ادا دیکھوں
مبارک ہو تجھے اے اشتیاق دیدۂ گریاں
زیارت کر کہ وہ پیش نظر ہے جلوۂ جاناں
تعال اللہ کیا صورت ہے جس پر جان جی قرباں
خدا ہے شیفتہ جس کا خدائی جس کی ہے خواہاں
بہر صورت واقع آفات عالم ہے
رخ انور کا نقشہ ہے کہ نقش اسمِ اعظم ہے
رخ انور پہ زلفیں ہل رہی ہیں لطف آتا ہے
دہن ناز و ادا سے مسکرا کر دل لبھاتا ہے
سواد گیسوئے مشکین سیاہ پایا جاتا ہے
نہیں ریش مطہر دفتر عرفان کا کھاتا ہے
نہیں موزوں ہوئی اے طبع عالی یہ نظیر اس کو
کلام اللہ ہے رخ کے لیے تفسیر کبیر اس کو
وہ آنکھیں ہیں جن آنکھوں سے جمال مصطفیٰ دیکھا
انہیں آہو سے کیا تشبیہ اور نرگس سے نسبت کیا
نگاہ مہر سے کس کو نہ بخشا رتبۂ اعلیٰ
انہیں آنکھوں سے دم میں دیدۂ اعمی کیے بینا
قسم قرآن کی دیدار خدا سے شاد ہیں آنکھیں
خدا واصف ہے ان کا سورۂ والصاد ہیں آنکھیں
وہ ابرو ہیں ہلال عید قربان جن کو کہتے ہیں
وہ عارض ہیں گل گلزار رضوان جن کو کہتے ہیں
وہ دندان ہیں دُر دریائے عرفان جن کو کہتے ہیں
وہ لب ہیں جوہری لعل بدخشاں جن کو کہتے ہیں
وہ گردن ہے جو حق نے نور کے سانچے میں ڈھالی ہے
وہ سینہ ہے کہ جس میں جمع کنیز لا یزالی ہے
کمر وہ رشتۂ جان سے جسے تشبیہ زیبا ہے
اسی موئے کمر کا گردن عنقا میں پھندا ہے
ہر یک باریک بیں سمجھے ہے جو کچھ اس کا پایا ہے
اسی کو نحق اقرب کا لقب قرآن میں آیا ہے
سخن داں گسس گیے اس کی ستائش میں قلم لاکھوں
ہوئی اس کی بدولت عازم ملکِ عدم لاکھوں
وہ دست پاک جن سے بیکسوں کو داد حاصل ہے
سخاوت جن پہ شیدا ہے شجاعت جن پہ مائل ہے
گہر باری میں مثل ابر جن کو مشق کامل ہے
ولا تجعل انہیں کے واسطے قرآن میں نازل ہے
مصیبت میں یہ ہی ہر شخص کی امداد کرتے ہیں
یہ ہی دامن جہاں کا گوہر مقصد سے بھرتے ہیں
دل بیتاب لے پابوسیٔ حضرت مبارک ہو
یہ موقع یہ گھڑی یہ وقت یہ ساعت مبارک ہو
تیری پیش نظر یہ چاند سی صورت مبارک ہو
تعال اللہ اوجِ نیرِ قسمت مبارک ہو
جو کہتا ہو حضور خواجۂ ہندالولی کہہ دے
گلے باغ شریعت کے سب اپنی بیکلی کہہ دے
مرے خواجہ مرے میخانۂ اجمیر کے ساقی
عبث ہے اپنی میخاروں سے تم کو اتنی ناچاقی
دل بیتاب میں اب صبر کی طاقت نہیں باقی
رکھائی ہو چکی بہر خدا دکھلا خوش اخلاقی
تجھے دیتا ہوں صدقہ دختر رز کی جوانی کا
میرے پیر مغاں ساغر شرابِ ارغوانی کا
تیری قربان پلا دے بادۂ عرفان مرے ساقی
تیری صدقہ و بنا دے بیخود و حرمان مرے ساقی
تیری صدقہ دکھا دے چہرۂ تابان مرے ساقی
تیری صدقے بتا دے معنیٔ قرآن مرے ساقی
نماز عشق سے دل خوب کر دے سیر بندہ کا
جھکے سر بیخودی میں جانب اجمیر بندہ کا
خدا کے واسطے پردہ اٹھا دے اے مرے خواجہ
خدا کے واسطے جلوہ دکھا دے اے مرے خواجہ
خدا کے واسطے بگڑی بنا دے اے مرے خواجہ
لگے ہے آگ سی دل میں بجھا دے اے مرے خواجہ
مسیحا لے خراب جان بہ لب بیمار ہے تیرا
بڑی سرکار ہے تیری بڑا دربار ہے تیرا
مرے خواجہ مرے داتا فقیروں کی سدا سن لے
مرا شور و فغاں سن لے مری آہ و بکا سن لے
خدا کے واسطے حال دل درد آشنا سن لے
پریشانی مری اے گیسوؤں والے ذرا سن لے
علی کے دلبر با زورید الٰہی یہ دکھلا دے
مثال قلعہ خیبر مرا کوہِ الم دہا دے
خبر لو جلد تر یا خواجۂ عالم دہائی ہے
مرے اقلیم دل پر لشکر غم کی چڑہائی ہے
تمہارے در پہ آ بیٹھا ہوں تم سے لو لگائی ہے
شہنشاہی سے بڑھ کر مجھ کو اس در کی گدائی ہے
مری امید بر لاؤ شہ ابرار کا صدقہ
مری مشکل کرو حل حیدر کرار کا صدقہ
کہاں تک درد کلفت سے کروں آہ و فغاں خواجہ
کہاں تک صدمۂ ایذا سے کہوں اپنی حاں خواجہ
کہاں تک غم کو رکھوں قصر دل میں مہمان خواجہ
خدا کے واسطے سن لو مرا درد نہاں خواجہ
نہ پاؤں گا میں جب تک آپ سے نقد تمنا کو
نہ چوڑوں گا قیامت تک در سلطان والا کو
مدد کن خواجۂ ہندالولی وقت حمایت ہے
غلام آستانِ پاک پر آفت پر آفت ہے
غم و رنج و الم ہے درد سے ایذا ہے کلفت ہے
خبر لو آپ کا بندہ گرفتار مصیبت ہے
نگاہِ لطفِ کیجے دامنِ امید بھر دیجے
دُرِ مقصود سے افضلؔ کو مالا مال کر دیجے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.