واہ کیا جود_و_کرم ہے شہ_بطحیٰ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا
نہیں سنتا ہے نہیں مانگنے والا تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا
فیض ہے یا شہ تسنیم نرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا
اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا
اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستہ تیرا
فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
آسماں خوان زمیں خوان زمانہ مہماں
صاحب خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا
میں تو مالک ہی کہوں گا ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
بہر سائل کا ہوں سائل نہ کنوئیں کا پیاسا
خود بجھائے کلیجہ میرا چھینٹا تیرا
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا
دل عبث خوف سے پتا سا اڑا جاتا ہے
پلہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسہ تیرا
ایک میں کیا میرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
مفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی
اب عمل پوچھتے ہیں ہائے نکما تیرا
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
خوار و بیمار خطاوار گنہ گار ہوں میں
رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا
تو جو چاہے تو ابھی میل میرے دل کے دھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا
کس کا منہ تکے کہاں جائے کس سے کہے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا
تونے اسلام دیا تو نے جماعت میں لیا
تو کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیہ تیرا
موت سنتا ہوں ستم تلخ ہے زہرا بۂ ناب
کون لادے مجھے تلووں کا غسالہ تیرا
دور کیا جائیے بد کار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا
تیرے صدقہ مجھے اک بوند بہت ہے تیری
جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا
حرم و طیبہ و بغداد جدھر کیجے نگاہ
جوت پڑتی ہے تری نور ہے چھنتا تیرا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
- کتاب : حدائقِ بخشش (Pg. 2)
- Author : اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.