تمنا ہے مرے سر میں رہے سودا محمد کا
تمنا ہے مرے سر میں رہے سودا محمد کا
ڈسے دل کو نہ یا رب سانپ گیسوئے مجعد کا
جبینِ حضرتِ آدم میں چمکا نورِ احمد کا
وہ پہلے ہی سے تھا چشم و چراغ اپنے اب وجد کا
حقیقت میں اسے سمجھیں گے مورد حمد بیحد کا
پتا الحمد سے پایا ہے ہم نے میمِ احمد کا
ترقی پر وفورِ ضعف میں ہے عشقِ احمد کا
تعجب ہے کہ طوفاں اٹھ رہا ہے جزر سے مد کا
نشانی چاہتا ہوں میں ترے محبوب کے غم کی
مجھے مل جائے یا رب داغِ سودا سنگِ اسود کا
ضرورت تھی انہیں بھی قاف میں ظلِ حمایت کی
جبھی پریاں اڑا کر لے گئیں سایہ ترے قد کا
ترے در پر پہنچ کر کام کچھ آئی نہ بیتابی
اچھل کر چوم لیتا میں کلس روضے کے گنبد کا
خیالِ عارضِ رنگیں میں رو رو کر غش آیا ہے
سونگھا دے کوئی لا کر پھول ہم کو تیرے مرقد کا
بٹھایا ہے مجھے شوقِ لقا نے کنجِ خلوت میں
سنیں گے کان کس دن شور اس کی آمد آمد کا
ہمارے ساتھ حضرت نے بڑی نیکی یہ کی یارب
کہ ستّاری تری پردہ نہ کھولے گی کسی بد کا
محمد کے وسیلے سے دعا مقبول ہوتی ہے
خدا خود جان لیتا ہے کہ اب موقع نہیں رد کا
شہِ جن و بشر کے غم میں شر کرتے ہیں جب نالے
مرے منہ سے نکل جاتا ہے جملہ خیر باشد کا
درِ دولت سے کب محروم ہو کر پھر گیا سائل
کرم تیرا نمونہ ہے خدا کے لطفِ بیحد کا
قیامت میں ہمارے پاس کی شے کام آئے گی
جو مانی تصور کھینچ دے نقشہ ترے قد کا
یہاں تو سر ہے اپنا آستانِ قبلۂ دیں پر
مبارک حاجیو بوسہ تمہیں کو سنگِ اسود کا
شبِ معراج بھی بیٹے سے عزت باپ نے پائی
کیا آدم نے استقبال جب شاہِ محمد کا
بجز عشقِ محمد اور کچھ بھی ہو تو کافر ہو
خدا ہی جاننے والا ہے میرے دل کے مقصد کا
ترا جلوہ نظر آ جائے مثل ماہِ دو ہفتہ
کہ بحرِ عشق میں پیدا ہو عالمِ جزر کامد کا
سوا تیرے ہوا ہے کون رمز و حی سے واقف
اگر دعوے کرے یہ جہل ہی عقل مجرد کا
تری ذاتِ مبارک انجمن آرا ئے کن ٹھہری
سریرِ عرش پر زیبا ہے بچھنا تیری مسند کا
فلک کی سبز بختی بڑھ گئی معراج کی شب میں
ترے جلوے سے گویا رنگ نکھرا ہے زبر جد کا
شفیع المذنبیں روٹھے ہوئے ہیں ہم منا لیتے
قیامت میں جو مل جاتا کوئی موقع خوشامد کا
ہمیں اس واسطے رشک آتے ہیں رہ رہ کے طوبیٰ پر
کہ اک جنت میں بھی ہے دیکھنے والا ترے قد کا
مجھے غم ہو تو تیرا ہو جو حسرت ہو تو تیری ہو
مقلد میں نہ ہوں گا طالبِ عیش مخلد کا
اسیرِ زلفِ احمد کو جہنم سے ہے آزادی
نہیں تو حال کب اچھا ہے مطلق سے مقید کا
رسول اللہ پر قربان ہیں ساری تمنائیں
مرے دل میں ہے موقع حسرت کشتہ کے مشہد کا
تو خلاقِ دو عالم ہے محمد سیدِ عالم
الٰہی کبر ٹوٹے اس مرے نفسِ مردد کا
گروہ انبیا میں کیوں نہ بیحد آبرو ہوتی
محمد گوہرِ یک دانہ ہے دریائے سرمد کا
ابوبکر و عمر، عثمان و حیدر دین کے حامی
نبوت کا محل تھا چار ارکانِ مشید کا
ابھی مل جائے گا سب کچھ تمہیں درگاہ خالق سے
دعا احسانؔ مانگو واسطہ دے کر محمد کا
- کتاب : Diwan-e-Ahsaan (Pg. 4)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.