Font by Mehr Nastaliq Web

ترا وجود ترا حسن ذات تھا لیکن

اختر انصاری اکبرآبادی

ترا وجود ترا حسن ذات تھا لیکن

اختر انصاری اکبرآبادی

MORE BYاختر انصاری اکبرآبادی

    ترا وجود ترا حسن ذات تھا لیکن

    ترے جمال کے قابل کوئی نگاہ نہ تھی

    تجلیات کے عالم میں اور کچھ بھی نہ تھا

    جنون عشق سے جلووں کی رسم و راہ نہ تھی

    حجاب اٹھنے لگے پھر رخ مثیت سے

    پھر اک اشارے سے گل کائنات پیدا کی

    یہ آب و آتش روشن یہ خاک با درباراں

    ملا کے اتنے عناصر حیات پیدا کی

    فلک پہ ہو گیے خورشید و ماہتاب عیاں

    فضا میں جلوہ نما تھے جمیل تارے بھی

    مگر عجیب تھی تیری تجلیٔ محبوب

    کہ جس سے جاگ اٹھے تھے حسیں نظارے بھی

    زمیں پہ بحر رواں مؤجزن کیا تو نے

    ہر ایک موج کے دامن میں ضو فگن تھے گہر

    ہر اک گہر سے زیادہ حسیں تھا وہ جلوہ

    وہ جلوہ جس کی نظر کے لیے تھا ہر منظر

    زمیں پہ پھول کھلے مسکرائے غنچے بھی

    تھیں عطر بیز وفائیں لطیف رنگ

    مگر تھا سب سے زیادہ حسین ایک ہی گل

    وہ گل کہ جس پہ ہو صدقے بہشت کا گلزار

    وہ موج نکہت گل ہو کہ موج باد صبا

    وہ حسنِ صبح چمن ہو کہ ہو خرام نسیم

    وہ موج نور جو گلزار و کائنات میں ہے

    اس ایک موج پہ صدقے ہزاروں موج شمیم

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے