ترا وجود ترا حسن ذات تھا لیکن
ترا وجود ترا حسن ذات تھا لیکن
ترے جمال کے قابل کوئی نگاہ نہ تھی
تجلیات کے عالم میں اور کچھ بھی نہ تھا
جنون عشق سے جلووں کی رسم و راہ نہ تھی
حجاب اٹھنے لگے پھر رخ مثیت سے
پھر اک اشارے سے گل کائنات پیدا کی
یہ آب و آتش روشن یہ خاک با درباراں
ملا کے اتنے عناصر حیات پیدا کی
فلک پہ ہو گیے خورشید و ماہتاب عیاں
فضا میں جلوہ نما تھے جمیل تارے بھی
مگر عجیب تھی تیری تجلیٔ محبوب
کہ جس سے جاگ اٹھے تھے حسیں نظارے بھی
زمیں پہ بحر رواں مؤجزن کیا تو نے
ہر ایک موج کے دامن میں ضو فگن تھے گہر
ہر اک گہر سے زیادہ حسیں تھا وہ جلوہ
وہ جلوہ جس کی نظر کے لیے تھا ہر منظر
زمیں پہ پھول کھلے مسکرائے غنچے بھی
تھیں عطر بیز وفائیں لطیف رنگ
مگر تھا سب سے زیادہ حسین ایک ہی گل
وہ گل کہ جس پہ ہو صدقے بہشت کا گلزار
وہ موج نکہت گل ہو کہ موج باد صبا
وہ حسنِ صبح چمن ہو کہ ہو خرام نسیم
وہ موج نور جو گلزار و کائنات میں ہے
اس ایک موج پہ صدقے ہزاروں موج شمیم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.