کچھ اور عشق کا حاصل نہ عشق کا مقصود
کچھ اور عشق کا حاصل نہ عشق کا مقصود
خبر آنکہ لطف خلشہائے نالۂ بے سود
مگر یہ لطف بھی ہے کچھ حجاب کے دم سے
جو اٹھ گیا کہیں پردہ تو پھر زیاں ہے نہ سود
کہو یہ عشق سے چھیڑے تو ساز ہستی کو
ہر اک پردہ میں ہے نغمہ ’’ھوالموجود‘‘
یہ کون سامنے ہے؟ صاف کہہ نہیں سکتا
بڑی غضب کی ہے نیرنگی طلسم نمود
اگر خوش رہوں میں تو تو ہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو تیرا حسن ہو گیا محدود
نہ میرے ذوق کو ہے دعائے غرض
نہ کام شوق کو پروائے منزل مقصود
مرا وجود ہی خود انقیاد طاعت ہے
کہ ریشے ریشے میں ساری ہے اک حسین سجود
مقامل جہل کو پایا نہ علم و عرفاں نے
میں بے خبر ہوں بہ اندازۂ فریب شہود
جواز کے شوق میں یوں محو آفتاب ہوا
میں بے خبر ہوں بہ اندازۂ فریب شہود
چلوں میں جان حزیں کونثار کر ڈالوں
نہ دیں جو اہل شریعت جبیں کو اذن سجود
وہ راز خلقت ہستی وہ معنی کونین
وہ جان حسن ازل وہ بہار صبح وجود
وہ آفتاب حرب نازنین کنج حرا
وہ دل کا نور وہ ارباب درد کا مقصود
وہ سردرود جہاں وہ محمد عربی
بہ روح اعظم و پاکش درد و نا محدود
ضیائے حسن کا ادنی سایہ کرشمہ ہے
چمک گئی ہے شبستان غیب و نرم شہود
نگاہ ناز میں پنہاں ہیں نکتہ ہائے فنا
چھپا ہے خنجر ابرو میں رمز ’’لاموجود‘‘
وہ مست شاہد رعنا، نگاہ سحر طراز
وہ جام نیم شبی، نرگس خمار آلود
کچھ اس ادا سے مرا اس نے مدعا پوچھا
ڈھلک پڑا مری آنکھوں سے گوہر مقصود
ذرا خبر نہ رہی ہوش و عقل و ایماں کی
یہ شعر پڑھ کے ڈال دی وہیں جبیں سجود
جو بعد خاک شد یازیاں بود یا سود
بہ نقد خاک شوم بنگرم چہ خواہد بود
- کتاب : گلدستۂ نعت (Pg. 25)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.