پائے گی اسی انساں سے ضیا ہر دور میں نسلِ انسانی
پائے گی اسی انساں سے ضیا ہر دور میں نسلِ انسانی
اخلاق ہے جس کا لا ثانی کردار ہے جس کا لا فانی
بے پرہ اگر ہو جائے کہیں سرکار کا روئے نورانی
یہ چاند یہ تارے چیز ہیں کیا خورشید بھی ہو پانی پانی
دربارِ نبی سے دور ہیں ہم در در کی لکھی ہے دربانی
جب ہم ان کے دیوانے تھے دنیا تھی ہماری دیوانی
آتے نہ اگر محبوبِ خدا انساں کو سکوں ملتا ہی نہیں
ہوتی نہ جہاں سے ختم کبھی یہ جہل کی فتنہ سامانی
ہے حسنِ عمل میں کس سے ضیا یہ علم و ہنر ہیں کس کی عطا
اک امی لقب کا صدقہ ہے لوگو یہ شعورِ انسانی
خیرات ہے کس کے عارض کی صدقہ ہے یہ کس کی زلفوں کا
پھولوں میں یہ رنگت یہ خوشبو خورشید و قمر میں تابانی
رحمت کی مسلسل بارش سے دنیا پہ شباب آتا ہی گیا
سرکار کے جب سے آئے قدم آئی نہ پلٹ کر ویرانی
ہے دوش پہ بارِ کون و مکاں نظروں میں نظامِ ارض و سما
کونین کی دولت ہاتھوں میں ٹھوکر میں غرورِ سلطانی
اعجازؔ ہم اُس کی مدحت کا حق کیسے ادا کر سکتے ہیں
وہ شخص کہ جس کی عظمت کا شاہد ہے کلامِ ربانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.