جس درجہ محبت تھی صحابہ کو نبی سے
جس درجہ محبت تھی صحابہ کو نبی سے
اس درجہ نہ کی ہوگی کسی نے بھی کسی سے
پائی ہے خودی پھول نے شبنم کی نمی سے
بلبل کا ترنم بھی ہے رنگ چمنی سے
گر مرد خدا چھوڑ دے اندیشۂ افلاک
پتھر بھی پگھل سکتا ہے احساس خودی سے
قومیں جو بنا کرتی ہیں کردار و عمل سے
برباد بھی ہوتی ہیں وہی بو الہوسی سے
اے مرد خدا کام ترا ہے انہیں دو سے
اک ولولۂ تازہ دوئم خوش نظری سے
کیا کیا نہ تغیر ہوئے افلاک و زمیں پر
آقائے دو عالم تری بس خوش نگہی سے
اسرار بھی اسرار نہ رہ پائے جہاں میں
سرکار دو عالم کی وسیع النظری سے
لمحوں میں مٹا سکتا ہے یہ ظلمت پیہم
لے کام جو مومن کہیں بالغ نظری سے
روپوش ہوئے ظلمت پیہم کے لٹیرے
عالم میں ضیا پھیلی جو نور ازلی سے
جس ذکر شبی سے نہ ملے فقر کی منزل
بہتر ہے یہ خاموشی ہی اس ذکر شبی سے
کیا پوچھ رہے ہو مرے سرکار کی سیرت
دشمن سے ملے بھی تو ملے خندہ لبی سے
ہندی ہوں حجازی ہوں کہ ہوں رومی و مصری
پائی ہے ضیا سب نے ہمارے ہی نبی سے
طہٰ ہو کہ یاسین ہو یا سورۂ رحمٰن
منسوب ہے ہر ایک ہمارے ہی نبی سے
بتلائیں گے خود طائف و بطحیٰ کے نواسی
کیا کیا نہ ملا ان کو مدینہ کے دھنی سے
تا عمر نہ لے نام وہ فردوس کا عبرتؔ
اک بار گزر جائے جو طیبہ کی گلی سے
- کتاب : Wajh-e-Lauh-o-Qalam (Pg. 54)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.