بہار آئی ہوئی آراستہ پھر بزم امکانی
بہار آئی ہوئی آراستہ پھر بزم امکانی
ہوا گلزار عالم پھر جواب باغ رضوانی
تمناؤں کا حشر اٹھا ہے پھر ویرانہ دل میں
جنوں نے دل کو دی پھر دعوت شوریدہ سامابی
چمن میں جس طرف دیکھو نظر بازوں کا جمگھٹ ہے
الٰہی کوچۂ قاتل ہے یا صحنِ گلستانی
چمن کا جلوۂ رنگیں ہے یا اک شعر فطرت ہے
کہ جس پر ذوق فطرت خود ہے محوِ آفریں خوانی
جبین صبح پر قشقہ ہے یا خطِ شداعی ہیں
ایاغِ لالہ میں شبنم ہے یا صہبائے ریحانی
نگاہیں جذب کر لی ہیں بہارِ عارض گل نے
رگِ گل کی حقیقت آج ہم نے جا کے پہچانی
نہ جانے حسن ہے یا عشق اتنا جانتے ہیں ہم
ہمیں کھینچے لیے جاتا ہے کوئی جذب پہنانی
یہ حسن و عشق کا ہے ایک لفظی تفرقہ ورنہ
مرا ہی پارۂ دل تھا کسی کا لعلِ پیکانی
کمال عاشقی ہے آپ مرنا اپنے جلوؤں پر
مرے مذہب میں خود بینی کو کہتے ہیں خدا دانی
خود اپنی شکل دیکھی پردۂ برقِ تجلی میں
تعجب کیا اگر تھی دیدۂ موسیٰ کو حیرانی
کہاں کا دشت ایمن طور کیا برق تجلی کیا
یہ سب کچھ تھی جمالِ مصطفیٰ کی پرتو افشانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.