Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

وجودِ عالم امکاں ہوا جب حکم قدرت سے

جگن ناتھ کمال

وجودِ عالم امکاں ہوا جب حکم قدرت سے

جگن ناتھ کمال

MORE BYجگن ناتھ کمال

    وجودِ عالم امکاں ہوا جب حکم قدرت سے

    تو چھینٹے چار سو اڑنے لگے دریائے رحمت کے

    عناصر بھی گلے ملنے لگے مہر و محبت سے

    ہوئی آراستہ بزم دوعالم حسنِ فطرت سے

    وہ نورِ سرمدی آدم کی پیشانی میں جا بیٹھا

    وہ محبوب الٰہی جسمِ انسانی میں جا بیٹھا

    یہی نورِ ازل خود غایت امکان عالم تھا

    یہی وہ نور تھا جو باعثِ تخلیق آدم تھا

    یہی دنیائے محزوں میں چراغ خانۂ غم تھا

    یہی وہ روشنی تھی جس سے کفر و جہل کو رم تھا

    یہی پیغمبروں میں منتقل ہوتا رہا برسوں

    یہی سب ہادیان خلق کا تھا رہنما برسوں

    اسی نے نوح کی سیل بلا میں رہنمائی کی

    اسی نے حضرت داؤد میں نغمہ سرائی کی

    اسی نے آتشِ نمرود میں معجز ادائی کی

    اسی نے خود ذبیح اللہ کی مشکل کشائی کی

    یہی ادریس کو زندہ فلک پر لے کے پہنچا تھا

    نگاہِ حضرت یحییٰ میں بھی یہ نور بستا تھا

    دل ایوب میں یہ صبر بن کر کار فرما تھا

    کلیم اللہ کو اس نے ہم کلامی پر ابھارا تھا

    اسی کا فیض ادنیٰ تھا جو اعجازِ مسیحا تھا

    یہی آخر میں عبداللہ کی پیشانی میں چمکا تھا

    اسی کی آدم معجز اثر تکمیل فطرت تھی

    اسی کی ہر کتاب آمانی میں بشارت تھی

    اسی کی جستجو شام و سحر خورشید کرتا تھا

    نہ گام ابلق ایام اک جا پر ٹھہرتا تھا

    اسی کے واسطے مہتاب راتوں کو نکھرتا تھا

    یہی کچھ دیکھنے کو گلشنِ عالم سنورتا تھا

    فلک پر رات کو تارے اسی کی راہ تکتے تھے

    خزاں دیدہ بہارِ زندگی کی راہ تکتے تھے

    اسی کے ہجر میں چشمِ حبابِ جو بھر آتی تھی

    اسی کی یاد میں دست دعا ہر شاخ اٹھاتی تھی

    اسی کو ڈھونڈنے باد صبا ہر سمت جاتی تھی

    مشیت جس کے انداز عمل پر مسکراتی تھی

    اسی کو دیکھتی تھی موج اُٹھ اٹھ کر سفینے میں

    اسی کوشش میں پانی غرق تھا اپنے پسینے میں

    بڑی ہی منتوں کے بعد شامِ منتظر آئی

    شب اندوہ و غم گذری سعادت کی سحر آئی

    رہین ہجر کو تسکین کی صورت نظر آئی

    کہ کانوں میں ندائے آمدِ خیرالبشر آئی

    ہر اک بیٹھے ہوئے دل میں خوشی کا ولولا اٹھا

    ہر اک جانب سے شورِ آمد خیرالوریٰ اٹھا

    ربیع الاول آتے ہی جہاں میں تازگی آئی

    گلستانِ تمنا میں بہارِ سرمدی آئی

    اسی کی بار ہویں شب بھی بشانِ دلبری آئی

    ندا یہ غیب سے آئی کہ روحِ زندگی آئی

    مجسم ہوکے نور سرمدی آیا بشر ہو کر

    جنابِ آمنہ کی گود میں آیا پسر ہو کر

    غریبوں کے نہال آرزوئے دل میں پھل آئے

    گرے مینارِ کسریٰ کفر و بدعت میں خلل آئے

    بجھا آتش کدہ جب مظہرِ نور ازل آئے

    زمیں چومی بتوں نے سجدے میں لات وہبل آئے

    امینِ آمنہ سے بزم ہستی جگمگا اٹھی

    زمانے بھر میں امیدوں کی کھیتی لہلہا اٹھی

    مبارک باد دینے کے لیے روح الامیں آئے

    مبارک ہو کہ بزمِ دہر میں خلوت نشیں آئے

    امینِ جنس وحدت آئے ختم المرسلیں آئے

    محمد مصطفیٰ محبوب رب العالمیں آئے

    وہ استادِ ادب عالمی نسب ماہِ عرب آیا

    وہ مقصودِ طلب کل کا سبب‘ امی لقب آیا

    سلام اے سرورِ عالم سلام اے مہرباں تجھ پر

    سلام اے ہادی دیں اے رفیق بے کساں تجھ پر

    سلام اے فخرِ ہستی اے شفیع عاصیاں تجھ کو

    سلام اے ظل اللہ اے نشانِ بے نشاں تجھ پر

    کمالؔ بے نوا کو صدقے میں درد آشنا کر دے

    لگا کر آگ دِل میں بے نیازِ مدعا کر دے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے