خدا کے فضل سے ہم پر ہے سایہ غوث اعظم کا
دلچسپ معلومات
منقبت در شان غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی (بغداد-عراق)
خدا کے فضل سے ہم پر ہے سایہ غوث اعظم کا
ہمیں دونوں جہاں میں ہے سہارا غوث اعظم کا
بلیات و غمِ افکار کیوں کر گھیر سکتے ہیں
سروں پر نام لیووں کے ہے پنچہ غوث اعظم کا
مریدی لا تخف کہہ کر تسلی دی غلاموں کو
قیامت تک رہے بے خوف بندہ غوثِ اعظم کا
جو اپنے کو کہے میرا مریدوں میں وہ داخل ہے
یہ فرمایا ہوا ہے میرے آقا غوثِ اعظم کا
سجل ان کو دیا وہ رب نے جس میں صاف لکھا ہے
کہ جائے خلد میں ہر نام لیوا غوثِ اعظم کا
ہماری لاج کس کے ہاتھ ہے بغداد والے کے
مصیبت ٹال دینا کام کس کا غوثِ اعظم کا
جہازِ تاجراں گرداب سے فوراً نکل آیا
وظیفہ جب انہوں نے پڑھ لیا یا غوثِ اعظم کا
گیے اک وقت میں ستر مریدوں کے یہاں آقا
سمجھ میں آ نہیں سکتا معما غوثِ اعظم کا
شفا پاتے ہیں صد بار جاں بلب امراضِ مہلک سے
عجب دارالشِفا ہے آستانہ غوثِ اعظم کا
نہ کیوں کر اؤلیا اس آساتنے کے بنیں منگتا
کہ اقلیمِ ولایت پر ہے قبضہ غوثِ اعظم کا
بلا کر کافروں کو دیتے ہیں ابدال کا رتبہ
ہمیشہ جوش پر رہتا ہے دریا غوثِ اعظم کا
بلاد اللہ ملکی تحت حکمی سے یہ ظاہر ہے
کہ عالم میں ہر اک شے پر ہے قبضہ غوث اعظم کا
وولانی علی الاقطابِ جمعاً صاف کہتا ہے
کہ ہر اک قطب ہے عالم میں چیلا غوثِ اعظم کا
سلاطینِ جہاں کیوں کر نہ ان کے رعب سے کانپیں
نہ لایا شیر کو خطرے میں کتا غوثِ اعظم کا
ہوئی اک دیو سے لڑکی رِہا اس نام لیوا کی
پڑھا جنگل میں جب اس نے وظیفہ غوثِ عاظم کا
ہوا موقوف فوراً ہی برسنا اہلِ مجلس پر
جو پایا ابرِ باراں نے اشارہ غوثِ اعظم کا
نیا ہفتہ نیا دن سال نو جس وقت آتا ہے
ہر اک پہلے بجا لا تا ہے مجرا غوثِ عاظم کا
جو حق چاہے وہ یہ چاہیں جو یہ چاہیں وہ حق چاہے
تو مٹ سکتا ہے پھر کس طرح چاہا غوثِ اعظم کا
فقیہوں کے دلوں سے دھو دیا ان کے سوالوں کو
دلوں پر ہے بنی آدم کے قبضہ غوث اعظم کا
وہ کہہ کر قم باذنِ اللہ جلا دیتے ہیں مردوں کو
بہت مشہور ہے احیائے موتیٰ غوث اعظم کا
جلایا استخوانِ مرغ کو دستِ کرم رکھ کر
بیاں کیا ہو سکے احیائے موتیٰ غوثِ اعظم کا
الی یا مبارک آتی تھی آواز خلوت میں
یہیں سے جان لے منکر تو رتبہ غوث اعظم کا
فرشتے مدرسے تک ساتھ پہنچانے کو جاتےتھے
یہ دربارِ الٰہی میں ہے رتبہ غوثِ اعظم کا
سفر سے واپسی میں دینِ اَقدس کو کیا زندہ
محی الدیں ہوا یوں نامِ والا غوثِ اعظم کا
جو فرمایا کہ دوشِ اؤلیا پر ہے قدم میرا
لیا سر کو جھکا کر سب نے تلوا غوثِ اعظم کا
دمِ فرماں خراساں میں معین الدین چشتی نے
جھکا کر سر لیا آنکھوں پہ تلوا غوثِ اعظم کا
نہ کیوں کر سلطنت دونوں جہاں کی ان کو حاصل ہو
سروں پر اپنے لیتے ہیں جو تلوا غوثِ اعظم کا
لعاب اپنا چٹایا احمدِ مختار نے ان کو
تو پھر کیسے نہ ہوتا بول بالا غوث اعظم کا
رسول اللہ نے خلعت پہنایا برسرِ مجلس
بجے کیوں کر نہ پھر عالم میں ڈنکا غوثِ اعظم کا
محرر چار سو مجلس میں حاضر ہو کے لکھتے تھے
ہوا کرتا تھا جو ارشادِ والا غوثِ اعظم کا
اگر چہ مرغ سب کے بول کر خاموش ہوتے ہیں
مگر ہاں مرغ بولے گا ہمیشہ غوثِ اعظم کا
کھلے ہفتاد در اک آن میں علمِ لدنی کے
خزینہ بن گیا علموں کا سینہ غوثِ اعظم کا
ہمارا ظاہر و باطن ہے ان کے آگے آئینہ
کسی شے سے نہیں عالم میں پردہ غوثِ اعظم کا
پڑھی لا حول اور شیطاں کے دھوکے کو کیا غارت
علوم و فضل سے وہ نور چمکا غوثِ اعظم کا
قصیدے میں جنابِ غوث کے دیکھو نظرت کو
تو سوجھے دور کی ظاہر ہو رتبہ غوثِ اعظم کا
رہے پابند احکامِ شریعت ابتدا ہی سے
نہ چھوٹا شیر خواری میں بھی روزہ غوثِ اعظم کا
ہے جب عرشِ الٰہی پہلی منزل ان کے زینے کی
تو پھر کس کی سمجھ میں آئے رتبہ غوثِ اعظم کا
محمد کا رسولوں میں ہے جیسے مرتبہ اعلیٰ
ہے افضل اؤلیا میں یوں ہی رتبہ غوثِ اعظم کا
عطا کی ہے بلندی حق نے اہل اللہ کے جھنڈوں کو
مگر سب سے کیا اونچا پھریرا غوثِ اعظم کا
اسی باعث سے ہیں قبروں میں اپنی اؤلیا زندہ
حیاتِ دائمی پاتا ہے کشتہ غوثِ اعظم کا
مری جاں کندنی کا وقت راحت سے بدل جائے
سرِ بالیں اگر ہو جائے پھیرا غوثِ اعظم کا
رہائی مل گئی اس کو عذابِ قبر و محشر سے
یہاں پر مل گیا جس کو وسیلہ غوثِ اعظم کا
یہ سنتے ہیں نکیریں اس پہ کچھ سختی نہیں کرتے
لکھا ہوتا ہے جس کے دل پہ طغرا غوثِ اعظم کا
عزیزو کر چکو تیار جب میرے جنازے کو
تو لکھ دینا کفن پر نامِ والا غوثِ اعظم کا
لحد میں جب فرشتے مجھ سے پوچھیں گے تو کہہ دوں گا
طریقہ قادری ہوں نام لیوا غوثِ اعظم کا
ندا دے گا منادی حشر میں یوں قادریوں کو
کدھر ہیں قادری کر لیں نظارہ غوثِ اعظم کا
چلا جائے بلا خوف و خطر فردوسِ اعلیٰ میں
فقط اک شرط ہے ہو نام لیوا غوثِ اعظم کا
فرشتوں روکتے کیوں ہو مجھے جنت میں جانے سے
یہ دیکھو ہاتھ میں دامن ہے کس کا غوثِ اعظم کا
جنابِ غوث دولہا اور براتی اولیا ہوں گے
مزہ دکھلائے گا محشر میں سہرا غوثِ اعظم کا
یہ کیسی روشنی پھیلی ہے میدانِ قیامت میں
نقاب اٹھا ہوا ہے آج کس کا غوثِ اعظم کا
یہ محشر میں کھلے ہیں گیسوئے عنبر فشاں کس کے
برستا ہے کرم کا کس کے جھالا غوثِ اعظم کا
یہ قیدی چھٹ رہے ہیں اس لیے میدان محشر میں
خدا خود بانٹتا ہے آج صدقہ غوثِ اعظم کا
گزاری کھیل میں کل اب ہوئی اعمال کی پرسش
مگر کام آگیا اس دم وسیلہ غوثِ اعظم کا
کبھی قدموں پہ لوٹوں گا کبھی دامن پہ مچلوں گا
بتادوں گا کہ یوں چھٹتا ہے بندہ غوثِ اعظم کا
ٹھکانا اس کے نیچے یا خدا مل جائے ہم کو بھی
کھڑا ہو حشر میں جس وقت جھنڈا غوث اعظم کا
خدا وندا دعا مقبول کر ہم روسیاہوں کی
گناہوں کو ہمارے بخش صدقہ غوثِ اعظم کا
مری پھوٹی ہوئی تقدیر کی قسمت چمک جائے
بنائے مجھ کو سگ اپنا جو کتا غوثِ اعظم کا
لحد میں بھی کھلی ہیں اس لیے عشاق کی آنکھیں
کہ ہو جائے یہیں شاید نظارہ غوث اعظم کا
صدائے صور سُن کر قبر سے اٹھتے ہی پوچھوں گا
کہ بتلاؤ کدھر ہے آستانہ غوثِ اعظم کا
کچھ اک ہم ہی نہیں ہیں آستانِ پاک کے کتے
زمانہ پل رہا ہے کھا کے ٹکڑا غوثِ اعظم کا
نبی نورِ الٰہی اور یہ نور مصطفائی ہیں
تو پھر نوری نہ ہو کیوں کر گھرانا غوثِ اعظم کا
نبی کے نور کو گر دیکھنا چاہے انہیں دیکھے
سراپا نورِ احمد ہے سراپا غوثِ اعظم کا
رسول اللہ کا دشمن ہے غوثِ پاک کا دشمن
رسول اللہ کا پیارا ہے پیارا غوث اعظم کا
مخالف کیا کرے میرا کہ ہے بے حد کرم مجھ پر
خدا کا رحمۃ للعالمیں کا غوث اعظم کا
جمیلؔ قادری سوجاں سے ہو قربان مرشد پر
بنایا جس نے تجھ جیسے کو بندہ غوث اعظم کا
- کتاب : قبالۂ بخشش (Pg. 93)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.