Font by Mehr Nastaliq Web

نگاہ فطرت کی ضو سے یوں تو ہر ایک ذرہ جھلک رہا ہے

جوش ملیح آبادی

نگاہ فطرت کی ضو سے یوں تو ہر ایک ذرہ جھلک رہا ہے

جوش ملیح آبادی

MORE BYجوش ملیح آبادی

    نگاہ فطرت کی ضو سے یوں تو ہر ایک ذرہ جھلک رہا ہے

    ہر ایک قوت ابھر رہی ہے ہر ایک پودا پھبک رہا ہے

    دبے ہیں ذرات کی تہوں میں ہزار اسرار کے خزانے

    ازل سے آغوش خار و خش میں کھلے ہیں پھولوں کے کارخانے

    ہوائے نشو و نما کا جھونکا ہر ایک چمن سے گزر رہا ہے

    ہر ایک خوشہ ہے محو زینت ہر ایک شگوفہ سنور رہا ہے

    ادا سے چلتی ہے گلستان جہاں میں باد بہار اب بھی

    زمانہ ہے رحمتوں کی تازہ نوازشوں سے دو چار اب بھی

    جبین لیلائے شب ہے روشن رد پہیلی قندیل سے قمر کی

    سنہری کنگن میں ہنس رہی ہے کلائی دوشیزہ سحر کی

    عطا و انعام کے فرشتے جہاں سدا پیش و پس رہے ہیں

    زمیں پہ صبح ازل سے اب تک کرم کے بادل برس رہے ہیں

    مگر یہ سب بے شمار تحفے زمیں کو فطرت جو بخشتی ہے

    کوئی حقیقی ہے ان میں نعمت تو وہ اک آزاد آدمی ہے

    وہ آدمی موج زندگی سے نگاہ جس کی دھلی ہوئی ہے

    وہ آدمی جس کے ہر نفس میں کتاب حکمت کھلی ہوئی

    وہ آدمی جس کی تیز نظریں مزاج عالم کی رازداں ہیں

    وہ آمی نبض پیچ و تاب حیات پر جس کی انگلیاں ہیں

    وہ آدمی جس کا جام الفت خنک ستارے پئے ہوئے ہیں

    وہ آدمی گرد و پیش جس کے فرشتے حلقہ کیے ہوئے ہیں

    وہ آدمی جس کی پاک دل میں پیام فطرت چھپا ہوا ہے

    و ہ آدمی جس کا گرم ناخن رباب ہستی کو چھو رہا ہے

    وہ آدمی جو شمیم گل سے علوم کے پھول چن رہا ہے

    وہ آدمی جو ہوا کی رو میں خدا پیغام سن رہا ہے

    اگر چہ نقش و قدم پہ اس کے ازل سے سجدے میں آسماں ہیں

    مگر غضب تو یہ ہے کہ جہاں میں اسی سے بے اعتنائیاں ہیں

    بہت سے گذرے ہیں یوں تو انساں خرد کی شمعیں جلانے والے

    بتوں کی ہیئبت اٹھانے والے خدا کا سکہ جگمانے والے

    مگر عرب کی خموشی افق سے کرن وہ پھوٹی رسول بن کر

    کہ جتنے ظلمت نے خار و خس تھے دہک اٹھے سرخ پھول بن کر

    ابھی تک انکار پر مصر ہے دماغ مختل ہے کافری کا

    نظام قدر سے ہے نمایاں ثبوت اس کی پیمبری کا

    کوئی فلاحت کا ہے وہ ماہر؟ کہ یہ حقیقت کرے ہویدا

    کہ خار کے تحم نے بھی کیا ہے کئی صدی میں گلاب پیدا

    کوئی نظیر اس کی مل سکے گئی؟ کہ آگ پانی سے جل سکی ہے

    زمیں میں چھٹکا سکی ہے تارے؟ چٹان موتی اگل سکی ہے

    کبھی کوئی جنس اپنی ضد کی طرف بتا دوا گر بھری ہے

    کلی سے شعلے کبھی اٹھے ہیں؟ شرر سے شبنم کبھی گو ہی ہے

    دیار باطل کے کارواں کو سرغ دین و ملل ملا ہے؟

    کسی کو خشکی کا بیج بو کر کبھی سمندر کا پھل ملا ہے

    سرشت جو خشت کی نہ سمجھے مزاج جو سنگ کا نہ جانے

    زباں اس کی سنا سکے گی ستون و محراب کے فسانے

    وہ خفتہ معمار جو نجانے کہ فن تعمیر کیا بلا ہے

    محل کا کیا ذکر اک گھروندا بھی زندگی میں بنا سکا ہے؟

    بنا سکے گا بھی وہ اگر کچھ نہ رہ سکے گا نشاں اسکا

    رہے گا مٹی کا ڈھیر ہو کر ضرور اک دن مکاں اسکا

    اس طرح وہ جو دوسروں کی بہار حکمت کا خوشہ چیں ہے

    اسی طرح وہ جو کہہ رہا ہے ’’نبی ہوں‘‘ لیکن نبی نہیں ہے

    وہ اک پودا ہے باغ عالم میں جو مسلسل نہ پھل سکے گا!

    کبھی اس آشفتہ سر کا مذہب جہاں میں صدیوں نہ چل سکیگا

    بھلا یہ ممکن ہے کذب پر ہو مدار اک دین مستقل کا

    گراں بہا وقت کی جبیں پر نشاں ہو اک پائے مضمحل کا

    کبھی تو غور کر اپنے جی میں کہ اس روش میں یہ بات کیوں ہے؟

    اگر یہ شئے عین حق نہیں ہے تو پھر یہ رنگ ثبات کیوں ہے؟

    اگر یہ مصحف نہیں تو ہاتھوں پہ کیوں مشیئت لیے ہوئے ہیں

    اگر غلط ہے تو کیا خدا کا جلال سازش کیے ہوئے ہے؟

    اگر یہ بے جان مسئلہ ہے تو زندگانی کا جوش کیوں ہے

    اگر یہ تکذیب کا ہے شایاں، زبان فطرت خموش کیوں ہے؟

    اگر صدا اس نبی امّی کی آسمانی صدا نہیں ہے؟

    تو پھر کہاں سے یہ فیض پہنچا جواب اثبات کا نہیں ہے

    عرب کے ہیرو عجم کے سلطاں نظام ارض و سماں کے والی

    زمیں پہ لطف و کرم کی تو نے عجب بنائی لطیف ڈالی

    چلا جو دوش صبا یہ تیرا پیام ابر بہار بن کر

    تمام باطل کے سنگریزے مہک اٹھے برگ و بار بن کر

    مشیت ایزدی کے دل سے بنا ہے شاید دماغ تیرا

    وگر نہ کیوں طاق باد سرسر میں جل رہا ہے چراغ تیرا

    دبے ہیں سینے میں زندگی کے بہت سے جوہر ابھرنے والے

    ادھر بھی ہاں اک نظر غدارا دلوں کے بیدار کرنے والے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے