کہوں کیا عشق میں یارو کہ کیا معلوم ہوتا ہے
کہوں کیا عشق میں یارو کہ کیا معلوم ہوتا ہے
بہر صورت بہر مورت خدا معلوم ہوتا ہے
خدا کہتے ہیں جس کو مصطفیٰ معلوم ہوتا ہے
جسے کہتے ہیں بندہ خود خدا معلوم ہوتا ہے
محمد سے جدا ہو کر خدا کی جستجو والا
خدا کو چھوڑ کر اہلِ ہوا معلوم ہوتا ہے
دلِ دانا نے گر سمجھا نہیں اسرارِ یزادں کو
خطا والا مجھے کیوں بے خطا معلوم ہوتا ہے
خدا دانی نے کیا کیا لذتیں بخشیں خدا داں کو
خدا کے جاننے والا خدا معلوم ہوتا ہے
زمانہ چھان مارا نیک و بد کو غور سے دیکھا
ہر اک شئے میں حقیقت کا پتہ معلوم ہوتا ہے
شہِ توحید نے کیا شان بخشی ہے موحد کو
کہ رہزن بھی بشکل رہنما معلوم ہوتا ہے
ہزاروں روپ بدلے سینکڑوں اشکال دکھلائے
مجھے سارا جہاں بہروپیا معلوم ہوتا ہے
فریدالدین دلبر کی نگاہوں کے تصدق سے
زمانہ سارا مجھ کو دلربا معلوم ہوتا ہے
کسی نفسِ مقدس یا کسی کے پارسا دل کو
دل بدکار بھی اک پارسا معلوم ہوتا ہے
شہِ خیرالوریٰ کے عشق میں اب تو محمد بھی
محمد مصطفیٰ کا نقشِ پا معلوم ہوتا ہے
- کتاب : دیوان محمدی (Pg. 147)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.