مرزا جی مرزائی کر گئے
مرزا جی مرزائی کر گئے
شکل انساں میں خدائی کر گئے
رحمۃ للعالمیں کی شان سے
مصطفائی مرتضائی کر گئے
آپ کا بندہ تو کافر ہو گیا
کیسی اچھی کبریائی کر گئے
وضع آزاد و قلندر میں رہے
متقی تھے پارسائی کر گئے
کیں ادائیں سینکڑوں ہر شان میں
عاشقی میں دل ربائی کر گئے
بن کے قطرہ ہی رہے دریا تھے گو
واہ کس درجہ سمائی کر گئے
صاف آلائش سے رکھے دست و پا
نفس سے وہ ہاتھا پائی کر گئے
جو کمایا دے گئے اور لے گئے
واہ کیا اچھی کمائی کر گئے
رہ گئے دھوکے میں بھی ظاہر پرست
عینیت میں ماسوائی کر گئے
خاک کو رکھ کر قدم روشن کیا
نقش چھوڑا پا بجائی کر گئے
منسبط ہو کر ملے ہر ایک سے
گاہ وہ ظاہر میں جدائی کر گئے
تیرہویں کو آپ کی رحلت ہوئی
تیرگی پر بھی صفائی کر گئے
کر دیا علویؔ کو کیا آزاد و رند
کیسے قیدی کی رہائی کر گئے
- کتاب : خمخانۂ ازلی (Pg. 121)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.