Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

پھر بہار آئی کہ ہونے لگے صحرا گلشن

محسن کاکوروی

پھر بہار آئی کہ ہونے لگے صحرا گلشن

محسن کاکوروی

MORE BYمحسن کاکوروی

    پھر بہار آئی کہ ہونے لگے صحرا گلشن

    غنچہ ہے نامِ خدا نافۂ آہوئے ختن

    فیض تاثیر ہوا ہے کہ ہوا جاتا ہے

    روکش باغِ خلیل اب کی سراپا گلخن

    جملۂ انبتہ اللہ نباتاً حسناً

    ان دنوں فصل بہاری میں ہے طغرائے چمن

    رشک شمشاد اُگا کرتے ہیں نخلِ قامت

    سرو گلزار زمین پر جو ہوا سایہ فگن

    خط گلزار ہوا جس نے لکھا خطِ غبار

    ہو گیا کاغذ مکتوب زمین گلشن

    کیوں نہ پروانہ کرے شور فغان بلبل

    گل ہوئی جاتی ہے اس فصل میں شمعِ روشن

    خرمی بخشی زمانے کو کیا دور الم

    واہ کیا باد بہاری نے سکھایا ہے چلن

    عاشقوں کو نہیں معشوق کی خواہش باقی

    یاد آتے نہیں فرقت کے کبھی رنج و محن

    دم افعی ہے سراسر اُنھیں اب نکہتِ زلف

    جب سے آئے ہیں نظر سنبل و ریحانِ عمن

    اب نہیں رنج سےہے سر بگریباں کوئی

    سر جھکاتے نہیں شاعر بھی پئے فکر سخن

    کس کی کاکل کے تصور میں پریشان ہوں میں

    کون سے آئینہ رخ پر ہوں میں حیران ہمہ تن

    کس کی آنکھوں کا ہوں بیمار اطبانے جو آج

    میرے تلوؤں سے ملا دیدۂ آہوئے ختن

    آج کس کے لب و دنداں کا تصور ہے مجھے

    جس سے دامن ہے مرا لعل و گہر کا معدن

    آج کس صاحبِ شوکت کی میں تکتا ہوں راہ

    کہ فرشتے ہیں اٹھائے مرے در کی چلمن

    رنگ و بو کس گل رعنا کی پسند آئی ہے

    نہ مجھے خواہشِ گلشن ہے نہ پروائے چمن

    یا دکرتا ہوں کفِ پائے مصفا کس کے

    روندتا ہوں جو میں پاؤں سے گلوں کا خرمن

    تنگ ہوں سیر گلستاں سے میں کس کے باعث

    کون سا پردۂ اسرار میں ہے غنچہ دہن

    یاد آتی ہے مجھے کس کی شمیم اخلاق

    ہے دمِ سرد مرارشک نسیم گلشن

    ہاں میں مفتوں ہو ں اسی رشک چمن کا کہ چمن

    جس کی صورت سے ہے صد خار ندامت در تن

    اس کو بیجا ہے گلستاں کا مشبہ کہنا

    کیسے کہیے کہ وہ ہے لالہ رخ و نسریں تن

    سرو کہنا قدِ موزوں کو نہیں راست کبھی

    تنگی دل ہے جو کہیے کہ وہ ہے غنچہ دہن

    اس کے عارض کو میں گلزار سے نسبت کیا دوں

    کہ نہیں عقل کے نزدیک کبھی مستحسن

    کیا عجب اس رخ زیبا کی جو توصیف لکھوں

    ہوں گہر ہائے نقط حضرتِ یوسف کا ثمن

    ثانی اس کا تو کہاں عکس بھی پایا نہ کبھی

    گرچہ آئینہ بنا چرخ پہ مہرِ روشن

    ماہ نے آنکھ لڑائی تو اٹھائے سوز خم

    شمع نے سر جو اٹھایا ہوئی اپنی دشمن

    کاکل اس آیۂ رحمت کی جو ہو مشک افشاں

    کیا عجب دل ہو مرا نافۂ آہوئے ختن

    کر لیا شیر خدا بندہ و فرماں بردار

    دلِ وحشی کو کیا رام بلا حیلہ وفن

    وصفِ ابرو میں کوئی بیت لکھوں بسم اللہ

    چل کے محراب عبادت میں جھکاؤں گردن

    جائے حیرت ہے کہ خورشید میں ہے قوس قزح

    دیکھیے چہرۂ زیبا میں اس ابرو کی پھبن

    زلف ہے لعبتِ چیں چشم سیہ گوشہ نشیں

    ہو گراں وصفِ نزاکت سے وہ پاکیزہ بدن

    اس کی توصیف میں اک شمہ ہے قرآن شریف

    کہ لکھا خامۂ قدرت نے بوجہِ احسن

    شمس وصفِ رخ ویٰسین ہے وصفِ دنداں

    والضحٰے وصفِ جبیں نور ہے وصفِ گردن

    یعنی وہ جس کی ہوئی ذات سراپا برکات

    باعثِ خلق زماں موجب ایجاد زمن

    پیشوائے رسل و سیدِ نسلِ آدم

    جلوۂ حضرتِ حق نور مجسم ہمہ تن

    جس کی توصیف میں خود خامۂ نقاش ازل

    لکھ چکا مطلع ایجاد بوجہ احسن

    جس کی ہے شرع متیں ناسخ ادیان و ملل

    مثبتِ حق و یقین کاشفِ ہر شبہ و ظن

    نہیں دن رات پلک مارتے جاں باز کہیں

    مطلقاً منع کیا شرع نے جو ضربِ زدن

    تا بہ گردن جو کبھی شیر کا ناخن پہنچے

    سمجھے تعویذ حفاظت کے لیے اس کو ہرن

    شیر آہو پہ نہ ڈالے نظرِ بد ہرگز

    آہوئے چشمِ بتاں بلکہ ہے اب شیر افگن

    اب زمانے میں نہیں رسم عداوت باقی

    بلکہ ظاہر ہیں عجب اُنس و محبت کے چلن

    عاشقوں سے ہے موافق بخدا دورِ فلک

    اب تو اضداد کو ہے شوق بہم پیوستن

    دستِ گلچیں اگر آزردہ کرے گل کو کبھی

    تو سزا ہو کہ بنے ہار ہی طوقِ گردن

    سرمگیں چشم ہے معشوق کی اس معنی میں

    شرع نے ڈالی ہے زنجیر بپائے رہزن

    اب کسی ڈھب سے ذرا اس کو مخاطب کریے

    کہ نہیں چین مجھے اے مری طبع روشن

    اے محمد ہے بلا شک وہ تری ذات حسن

    جس کی توصیف میں عالم کی زباں ہے الکن

    یہ نئی بے ادبی مجھ سے نہ ہوتی ہرگز

    مجھ کو گستاخ نہ کرتا جو ترا عشق کہن

    ہے گزارش یہی محسن کی بامید قبول

    ہو معاف اب نظر لطف سے بے ساختہ پن

    یاد مژگاں میں تری خار لحد کر کے قبول

    چادرِ گل کو نہ منظور کروں بہر کفن

    مجھ سیہ بخت کو ہو عشق لبِ رنگیں کا

    مہر سے لعل کو پیدا کرے کانِ آہن

    نہ رہے چشمۂ کوثر کی تمنا مجھ کو

    اس طرح کر لے تو اپنا مجھے مفتون دہن

    یاد میں جلوۂ رخسار کے ہو حشر مرا

    صبح محشر کو یہ سمجھوں کہ وہ ہے صبح وطن

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے