محبوب خدائے انس و جاں کا
محبوب خدائے انس و جاں کا
مقصود رموزِ کن فکاں کا
منظور اشارۂ فکبر
قائم بمقام قم فانذر
نور القمرین والکواکب
خورشیدِ مشارق و مغارب
ہاشم کی کلاہ میں گلِ تر
دامن میں قریشیوں کے گوہر
امکان کے گھر کا ابر نیساں
دریائے قدم کا شاخ مرجاں
صانع کے قلم کا رنگ ایجاد
بندوں کے چمن کا سر و آزاد
ایماں کی سند کا نقشِ خاتم
عرفاں کے نگیں کا اسمِ اعظم
آغاز ازل کی ابتدا کا
انجام ابد کی انتہا کا
تشبیہ کے آئینہ میں تمثال
تنزیہ کی سلطنت کا اقبال
رونق دہ ایمن تجلی
شمعِ تہ دامن تجلی
لاہوت مقام و عرش مسند
شاہنشہ انبیا محمد
تا دور زمانہ بہر نامش
تسلیم خدا و احترامش
اس وقت وہ دفتر معانی
تھا داخل بیت ام ہانی
رکھتا ہی نہ تھا قدم زمیں پر
نازاں تھا مکاں اُس مکیں پر
تھی خاک وہاں کی گل بدامن
اس حجرے کا تھا چراغِ روشن
راحت تھی نیاز مند سرکار
تھا خواب کا بختِ خفتہ بیدار
رحمت کی ردائے مہر گستر
گلگوں و لطیف و صاف بستر
رنگینی فیض عام قالیں
خاطر کا گداز شمعِ بالیں
ہم غافلوں کا خیال ہر پل
آرایش پردہ ہائے مخمل
تھی چاندنی کی بساط ہی کیا
ہوتی جو وہ فرش بزم والا
کیا بال ہما کے بالش پر
تکیہ سرِ پاک کا خدا پر
خضر رہِ حق مقیم منزل
سوتی ہوئی آنکھ جاگتا دل
دریائے رواں برنگ گوہر
غنچے کے لباس میں گل تر
آداب سے آپ کو اٹھایا
یا اپنے نصیب کو جگایا
بیدار ہوئی جو چشم حق بیں
آہو ہوئی شکل خواب شیریں
دیکھا کہ عجب ماجرا ہے
گھر برج قمر بنا ہوا ہے
انشائے رموز غیب مخبر
ہونے کا نہیں یہ دن کبھی پھر
سونا کبھی ہونہ یہ جگانا
لیتا رہے کروٹیں زمانا
طالع میں نہیں یہ شب کسی کے
اختر سو بار سو کے جاگے
ہوگی نہ یہ پھر زمیں کی توقیر
مٹی ہو ہزار بار اکسیر
انوار کا ہے درود پیہم
تاروں کی برس رہی ہے شبنم
نازل سوئے عالمِ مجازی
امواجِ محیط بے نیازی
جبریل ہیں اور براق بھی ہے
قاصد بھی ہے اشتیاق بھی ہے
تحریک نسیم و صبح صادق
کشتی سبک و ہوا موافق
کوسوں سے رسولِ روح پرور
آیا ہے ہوائے شوق لے کر
آنا ہے طلب کا استعارہ
بردن کا ہے آمدن اشارہ
یعنی اٹھیے کہ بحرِ پر جوش
گوہر کے لیے ہے کھولے آغوش
اٹھیے کہ چمن ہرا بھرا ہے
طوطی بلبل کا بولتا ہے
اٹھیے کہ ہے بابِ فیض مفتوح
ہے طالب جسم عالمِ روح
اٹھیے کہ نگاہِ چشم تنزیہ
ہے منتظر جمال تشبیہ
اے محملِ شوقِ منزل ذوق
اے شاہدِ ذوقِ محمل شوق
اے ہمتِ طالب آں مطلوب
اے جانِ حبیب و شانِ محبوب
تھی دل سے تجھے طلب خدا کی
ہر لحظہ تھی یاد کبریا کی
اب اس کی طلب کا ہے تقاضا
ہے یاد میں تیری حق تعالیٰ
دیکھ اٹھ کے بہارِ منزلِ صدر
اے امشب و ہر شبت شبِ قدر
کر سیر مقام قدس کی آج
اے امشب و ہر شب تو معراج
عرش آپ کا منتظر ہے چلیے
خاطر کو سنبھالیے سنبھلیے
پاکر یہ اشارۂ کرامت
کی شوق نے شورش قیامت
سینے سے جگر چلا نکل کر
شادی سے ہزار ہاتھ اچھل کر
فرحت سے ہوا یہ قلب بیتاب
آئینہ دکھا رہا تھا سیماب
پہنچا دلِ بیقرار سرور
سو بار زمیں سے آسماں پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.