کچھ نہ پوچھو وصلِ محبوبِ خدا کیوں کر ہوا
کچھ نہ پوچھو وصلِ محبوبِ خدا کیوں کر ہوا
میں ہی دل سے پوچھتا ہوں کیا ہوا کیوں کر ہوا
دستِ کوتہ جالیوں تک خود رسا کیوں کر ہوا
میں گنہگار اس طرح کا پارسا کیوں کر ہوا
رہتی ہے ہر دم وہیں جن کی نگاہِ چشمِ دل
ان سے پوشیدہ مزارِ مصطفیٰ کیوں کر ہوا
زائرِ خیرالبشر میں رشکِ اہلِ سلطنت
ہم فقیروں کو بھی یہ رتبہ عطا کیوں کر ہوا
کہتے تھے ہم مردہ دل حیرت سے وہاں روز وصال
مسکن اپنا آج یہ دارالبقا کیوں کر ہوا
خاکِ نعلینِ طبیب روح گر اس میں نہیں
پھر یہ نام اس خاک کا خاکِ شفا کیوں کر ہوا
رو دیا بے اختیار اور دل سے نکلی آہ سرد
جس نے پوچھا ہجر کے دن ماجرا کیوں کر ہوا
دل سے کیا پوچھوں کہ یہ ہے بے زباں کیا کہہ سکے
کیا ہوا حاصل زیارت کا مزا کیوں کر ہوا
وہاں میں اس حیرت میں مر جاتا تو کچھ حیرت نہ تھی
یک بیک مجھ پر یہ لطف کبریا کیوں کر ہوا
گھستے گھستے مسجدِ احمد میں بس مٹ جائے سر
ورنہ کیا جانوں وہاں سجدہ ادا کیوں کر ہوا
وہ ترقی مدارج میں ہیں بےمثل و سہیم
آپ پر دیکھو نزدلِ والضحیٰ کیوں کر ہوا
سایۂ حسنِ قدم ہے حسنِ حادث ورنہ یہ
سب فرشتوں کو بھی عشق انسان کا کیوں کر ہوا
جب تو کہتا تھا اگر جاؤں تو مر جاؤں وہیں
پھر فقیرؔ اب تو مدینے سے جدا کیوں کر ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.