یہ وہ قصہ ہے جسے سن کر ہوئی ہر آنکھ نم
دلچسپ معلومات
مسدس بہ بارگاہ حضرت امام حسین (کربلا-عراق)
یہ وہ قصہ ہے جسے سن کر ہوئی ہر آنکھ نم
جس کے دکھ سے آج تک لاکھوں جگر ہیں محوِ غم
کس طرح برسے نبی کی آل پر درد و الم
کر سکا نا آج تک جن کو بیاں کوئی قلم
جن و انساں نے لگائی آنسوؤں کی اک جھڑی
ابر برسے ظلم کے آلِ نبی پر جس گھڑی
ہجر کا دیکھا نہ تھا انسان نے ایسا سماں
اہلِ حق کے قلب میں اٹھا تھا طوفانِ خزاں
جب ہوئے شبیر اپنے گھر سے مکہ کو رواں
پوچھیے مت کس طرح طیبہ میں تھا آہ و فغاں
لائے گا ان کو مقدر ابن واپس موڑ کر
چل پڑی ہے آلِ اطہر شہرِ طیبہ چھوڑ کر
قبلۂ دل کعبۂ جاں نورِ چشم مصطفیٰ
وجہ تسکین و سکون اے رازِ کیفِ اتقیا
وارث فیضِ جناب تاجدار ھل اتٰی
صدر عزت بدرِ رفعت رونقِ آل عبا
شہ سوارِ کربلا و پارۂ قلبِ بتول
جانشین مرتضی و راکب دوشِ رسول
کس کے صدقے سے گلستاں میں ابھی تک ہے بہار
کس کے صدقے سے نبی کا دیں ہے اب تک موج دار
کس نے کر ڈالا بیابانوں میں سب کنبہ نثار
اللہ اللہ پوچھیے نہ کون تھا وہ شہ سوار
نام کس کا آج تک بے چین دل کا چین ہے
کون ہے جس کا حوالہ رونق دارین ہے
چاشنی لائے جو دل میں وہ ہوائیں نہ رہیں
لے چلیں جانب خدا کے وہ صدائیں نہ رہیں
جس پہ ہو نازاں ملائک وہ ادائیں نہ رہیں
کربلا والوں کے جیسی اب وفائیں نہ رہیں
مدتوں آلام میں دنیا یہ رہتی ہے زبوں
تا ز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں
لو طلوع اب ہو رہا ہے درد و غم کا آفتاب
چیرتا جاتا ہے گھر والوں کے سینے کو عتاب
ہر نفَس بے چین ہے ہر ایک میں ہے اضطراب
دشت میں ایسی تپش ہے کہ بھنے کچّا کباب
سامنے شبیر کے بیٹوں کو مارا جائے گا
بے رحم ہو کر گلستاں کو اکھاڑا جائے گا
ایک دم سے ہو گئے اہل ستم سب بے قرار
یہ ہوا اعلان کے ہو جائیں اب سب ہوشیار
آ گیے میدان میں شبیر یہ کرتے پکار
لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار
ظالموں کی فوج ڈر کر شیر سے دوڑی چلی
حشر برپا کر رہے ہیں جنگ میں ابن علی
گھر لٹا کر لڑ رہے ہیں جنگ میں تنہا حسین
خاک پر لیٹے پڑے ہیں فاطمہ کے نور عین
واہ تیری جان بازی اے نجیب الجانبین
حملہ آور ہو رہے ہیں مہ جبیں پر سب لعین
اس سے بڑھ کر اور پھر کب غم کی شب ہے دوستو
ساقی کوثر کا وارث تشنہ لب ہے دوستو
آج کے دن کر رہا ہے آہ نالہ سب جہاں
پیاس کی شدت سے خیموں میں کریں بچے فغاں
آج آئی وہ خزاں کے جل گیا سب باغباں
لڑ رہے ہیں نازِ حیدر دشمنوں کے درمیاں
ختم ہو جاتی ہے آ کر ظلم کی یاں انتہا
آ گئی طیغوں کے نیچے بوسہ گاہِ مصطفیٰ
سر کٹا بھائی کا تک کر آئی زینب دوڑ کر
بے کسی نہ تھم سکی تو رخ کو طیبہ موڑ کر
ہچکیوں کا ہار باندھے ہاتھ اپنے جوڑ کر
بول اٹھی اے نبی سب چل دیے ہیں چھوڑ کر
فوج ظالم کو کہاں یہ باغ کھلتا راس تھا
کون تھا جس کو نبی کی نسبتوں کا پاس تھا
اے حسین ابن علی اے نازنینِ مصطفیٰ
آپ کی قربانیاں سارے جہاں سے ہیں جدا
اے شبیہ مصطفیٰ جانِ علی رازِ خدا
یہ حذیفہؔ اپ کے در کا ہے یک ادنیٰ گدا
گر سفارش آپ کی نانا کے در پر جائے گی
با الیقیں اس ناتواں کی بات پھر بن جائے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.