وہ ابرِ فیض نعیم بھی ہے نسیم رحمت شمیم بھی ہے
وہ ابرِ فیض نعیم بھی ہے نسیم رحمت شمیم بھی ہے
شفیق بھی ہے خلیق بھی ہے رحیم بھی ہے کریم بھی ہے
وہ حسنِ سیرت کا ہے مرقع، جمال حق ہے جمال اس کا
وہ پیکرِ فطرتِ معلیٰ شبیہِ خلقِ عظیم بھی ہے
وہ معنی حسنِ آفرینش، نظر نواز ہر اہل بنیش
حبیب رب جلیل بھی ہے جمیل بھی ہے سلیم بھی ہے
وہ علم و عرفاں کا ہے مدینہ، خزینۂ راز امن کا سینہ
وہ پیکر نورِ سرمدی ہے وہ حسن خلقِ عظیم بھی ہے
وہ حامل وصاحبِ شریعت وہ مرشد و ہادیٔ طریقت
معلم معرفت بھی ہے اور رموزِ حق کا علیم بھی ہے
خلیل کی وہ دعا کا ثمرہ، کلیم نے اس کی دی بشارت
وہ خاتمِ نعمتِ نبوت، ظہور لطفِ عظیم بھی ہے
کوئی یہ اس کا وقار دیکھے پھر اس پہ یہ انکسار دیکھے
سر مبارک پہ تاجِ اظہر سے دوش پر ایک شمیم بھی ہے
اٹھائیں جس نے اذیتیں پھر انہی کے حق میں دعائیں مانگیں
کسی میں یہ شانِ حلم بھی ہے اور ایسا کوئی کلیم بھی ہے
وہ بقعۂ نور، وہ مدینہ حضور خلوت نشیں ہیں جس میں
نعیم خلدِ بریں بھی اس میں وہ رشکِ خلد نعیم بھی ہے
ہوا جو یثرب سے آ رہی ہے ہر اک کلی کو کھلا رہی ہے
یہی ہوا ہے نسیمِ رحمت یہی لطافت شمیم بھی ہے
جناب موسیٰ کلیم تھے میں بھی مانتا ہو کلیم ان کو
مرے پیمبر کا ہے یہ مرتبہ جلیل بھی ہے کلیم بھی ہے
یہ آپ کے قیسؔ کا ہے ایماں حضور ہیں رہنمائے انساں
حضور کا جو نہیں ہے قائل شقی بھی ہے وہ لئیم بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.