Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

امتحانِ بشر تجھ کو مقصود ہے کیسے کہہ دوں میں آسودگی چاہیے

قیصر رتناگیروی

امتحانِ بشر تجھ کو مقصود ہے کیسے کہہ دوں میں آسودگی چاہیے

قیصر رتناگیروی

MORE BYقیصر رتناگیروی

    امتحانِ بشر تجھ کو مقصود ہے کیسے کہہ دوں میں آسودگی چاہیے

    میرے معبود تیری خوشی میں ہوں خوش مجھ کو ہر وقت تیری خوشی چاہیے

    محو تیرے تصور میں ہر دم رہوں یعنی رشکِ خودی بے خودی چاہیے

    بندہ پرور یہی ہے عقیدہ میرا چاہیے چاہیے لازمی چاہیے

    زندگی کے لیے بندگی چاہیے بندگی کے لیے زندگی چاہیے

    لفظ کن سے دو عالم کو پیدا کیا وہ فلک بن گیا بن گئی یہ زمیں

    وجہ تخلیق آدم پہ اہلِ فلک جس گھڑی بے تحاشہ ہوئے نکتہ چیں

    فیصلہ تو نے اپنا یہ صادر کیا میں خلیفہ بناؤں گا اب بالیقیں

    تم سے بارِ امانت فرشتو اٹھے یہ تو ممکن نہیں یہ تو ممکن نہیں

    اس امانت کی خاطر بنامِ امیں آدمی چاہیے آدمی چاہیے

    حاصلِ زندگی ہو اطاعت تیری ماسوا اس کے ساری تمنا غلط

    فکرِ دنیا غلط فکرِ عقبیٰ غلط، فکرِ امروز کیا فکرِ فردا غلط

    سر تری بارگاہ میں خمیدہ رہے در بدر اپنے سر کو جھکانا غلط

    بخت کی گردشیں وقت کی بے رخی حادثاتِ دو عالم کا کھٹکا غلط

    مشکلیں خود ہی آسان ہو جائیں گی دل میں ایمان کی روشنی چاہیے

    وہ سوال آلست جواب بلا بن گیا عین تخلیق کا مدعا

    حکم سجدہ ملائک کو دے کر وہیں رتبۂ نوع انساں کو اعلیٰ کیا

    انتہائے کرم ہے کرم نے تیرے اس قدر کچھ بڑھایا میرا حوصلہ

    تیری رحمت کے صدقے بروز ہا دل میں نے بے ساختہ بڑھ کے دی یہ دعا

    عشق تیرا محبت نبی کی ترے، لا مجھے دے مجھے دے یہی چاہیے

    شیخ اور برہمن کی ان باتوں میں آ ان کی باتوں میں بھٹکا کیے عمر بھر

    ایک مقصود ہیں راستے ہیں الگ اک کہے آ ادھر اک کہے چل ادھر

    اونچ اور نیچ کے فرق میں کس قدر گھر گیا ہے خدا کی قسم یہ بشر

    یک جہتی کا پیغام قیصرؔ کہاں ان کے پیشِ نظر بات ہے مختصر

    دشمنی دوستی میں بدل جائے بس زندہ رہنے کی خاطر یہی چاہیے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے