عرشِ بریں پہ آج درخشاں وہ نور ہے
عرشِ بریں پہ آج درخشاں وہ نور ہے
جس سے فروغ شمع سرِ کوہِ طور ہے
تارے سے نامِ نامیِ حضرت عیاں ہوا
یہ معجزہ حضور کرامت ظہور ہے
یہ آنکھیں اور اس کا نظارہ زہے نصیب
دربارِ انبیا میں جو صدرالصدور ہے
ہاں کیوں نہ ہو یہ نور ہے اس شاہ کا کہ جو
محبوب حق ہے شافع یوم النشور ہے
سلطان دیں کہ جن کے غلاموں کے واسطے
سب انتظام جنت و حور و قصور ہے
تمثیل اس کے حسن کی کوئی کہاں سے لائے
جس شہ کے عاشقوں کی پرستار حور ہے
کیوں سر کے بل نہ اس پہ چلیں مہر و مہ کے چرخ
پامال بادپائے رسولِ غیور ہے
حضرت کی ہو گئی جو نظر التفات کی
اب عرش پر دماغِ دل نا صبور ہے
وہ دل جو تھا تپش میں کبھی روکشِ حجیم
اب آج دیکھیے تو سرائے سرور ہے
معراج کا تو حال کسی سے چھپا نہیں
آگاہ اس قضیہ سے ہر ذی شعور ہے
پھر جان زار سینے یں دیدار کے بغیر
مضطر رہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے
عاشق ہوں مجھ کو جلوۂ جانانہ چاہیے
ہوگا وہ اور جو کوئی شیدائے حور ہے
ہے آرزو خلد سے مقصود وصل یار
کس کو خیال کوثر وحور و قصور ہے
جنت کی سمت رخ نہ کروں آپ کے بغیر
حضرت کا ہوں گدا تو طبیعت غیور ہے
ممکن ہے مدح کس سے پھر اس ذات پاک کی
مدحت طراز جس کا خدائے غفور ہے
مقصود عرضِ حال ہے ورنہ غلام کو
دعویٰ کلام کا نہ زباں کا غرور ہے
خادم کا بال بال گنہ گار ہے تو ہو
مداح ہے حضور کا اتنا ضرور ہے
لاکھوں خطائیں کی میں بس اتنی امید پر
حضرت تو ہیں شفیع خدا بھی غفور ہے
محشر میں دیکھ لیں گے جنہیں اشتباہ ہو
سامیؔ ہے اور جامِ شرابِ طہور ہے
تھی مجھ کو فکرِ سال کہ ہاتف نے دی ندا
لوحِ فلک پہ جلوہِ نام حضور ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.