وفور ضبط سے سینہ تھا لالہ زار مرا
وفور ضبط سے سینہ تھا لالہ زار مرا
ہر ایک سانس تھا اک آہ سوگوار مرا
اگر چہ خاک کے پیکر میں دھل گئی تھی میں
فراز عرش پہ پراں تھا قلب زار مرا
نمود شام و سحر سے تھی آگہی مجھ کو
لباس ہستیٔ کہنہ تھا تاتار مرا
فرشتے لے گیے مجھ کو حضور کے در پر
زہے جمال محمد، زہے رخ انور!
کہا حضور نے ملت کی غم نوا بیٹی
فضا سے گیتی سے تیری آہ اٹھی!
زمین و عرش کے چودہ طبق لرزنے لگے
تیری صدائے جگر سوز ہم تلک پہنچی
کہا یہ ہم نے فرشتوں سے جائیں دنیا میں
یہ کون عاشق امت ہے لائیں ابھی
تو اب بتا مری امت کا حال کیسا ہے؟
یہ تیرے قلب پہ رنج و ملال کیا ہے؟
حضور شرم سے گردن جھکائے آتی ہوں
ہزاروں داغ کلیجہ پہ کھائے آئی ہوں
حضور آپ کی امت کا حال ابتر ہے
میں غم کی آگ کو دل میں دبائے لائی ہوں
فرنگی سحر کے طابع ہیں خاک داں والے
خدا کو بھولتے جاتے ہیں اب جہاں والے
نہ اب وہ جوہر مرداں نہ خوئے زن باقی
نہ اب مجاہد ملت، پئے وطن باقی
نہ اب وہ مسجد و منبر بہ نعرۂ تکبیر!
نہ خوف روز قیات نہ زہد تن باقی
نہ اب وہ حسن کی شوخی نہ عشق میں گرمی
نہ جوئے شیر کی کوشش نہ کوہ کن باقی
نہ اب وہ ملت بیضا، نہ اب وہ عہد کہن
نہ اب وہ دین کے پجاری نہ جوش حب وطن
مری دعاؤں کو یا رب اثر طرازی دے
مری صدائے حزیں کو تو سرفرازی دے
زمانہ در پئے آزار قوم مسلم ہے
محب خاک وطن کوئی مردے غازی دے
ولولوں کو جذبۂ ایماں سے پھر مصفا کر
جبین شوق کے سجدوں کو پاک بازی دے
میں دردمند ہوں سن لے مری دعا یا رب
جو سو رہے ہیں ان کو خواب سے اٹھا یا رب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.